مخاطب کیا گیا ہے پس آپ کی یہ کمال خوش فہمی ہے کہ یہاں رسول خداﷺ کو مراد لے رہے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کی تسلی ہوگئی ہوگی اگر کچھ کسر رہ گئی تو احقر پھر خدمت کو تیار ہے۔
تیسری آیت… یہ ہے جس سے نزول مسیح ثابت ہے: ’’وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا واتبعون۔ ہذا صراط مستقیم، ولا یصدنکم الشیطن انہ لکم عدوٌ مبین (زخرف:۶۱،۶۲)‘‘ {اور بے شک وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے لئے نشان ہے پس اس میں شبہ نہ کرو اور میری پیروی کرو۔ یہ راہ سیدھی ہے اور تم کو شیطان نہ رو کے بے شک وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔}
اس آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے دوبارہ تشریف لائیں گے اور ان کا تشریف لانا قیامت کی نشانی ہے۔ خدائے علیم وخبیر کے علم میں تھا کہ کسی زمانہ میں شیطان بعض لوگوں کو اس عقیدہ سے ورغلا کر گمراہ کردے گا اس لئے اس نے اپنے نبیوں کی معرفت لوگوں کو پہلے ہی متنبہ کردیا کہ خبردار شیطان کے بہکانے پر اس عقیدہ سے انکار نہ کرنا کیونکہ وہ تمہارا دشمن ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ: ’’جھوٹے اور جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے اور ایسے بڑے نشان اور عجیب کام دکھائیں گے کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کرلیں۔ دیکھو میں نے پہلے ہی تم سے کہہ دیا ہے۔‘‘ (متی، باب ۲۴، آیت ۲۴، ۲۵، مرقس، باب ۱۲، آیت ۲۲،۲۳)
اور آپ نے دو بارہ آنے کی خبر اس طرح دی تھی: ’’اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہوجائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی اور اس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا اور اس وقت زمین کی سار ی قومیں چھاتی پیٹیں گی اور اس آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب یہ باتیں نہ ہولیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہوگی۔ آسمان اور زمین ٹل جائیں گے۔ لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی۔ لیکن اس دن اور اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر صرف باپ۔‘‘
(متی، باب ۲۴، آیت ۲۹،۳۰،۳۴ تا ۳۶، مرقس، باب ۱۳، آیت ۲۴ تا ۲۶، ۳۰ تا۳۲)
اس کے بعد اب قرآن مجید نے دوبارہ صراحت کردی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ تشریف لانا حق ہے۔ شیطان کا دھوکہ نہ کھانا پس اگر کوئی اب بھی نہ سمجھے تو اس کی مرضی۔
اس آیت کی تفسیر آثار صحابہ سے بھی اس طرح مروی ہے۔ چنانچہ درمنثور میں ہے: