عام عقیدہ کے مطابق بھی وہ محض مجدد ہوکر آئیں گے۔ نہ نبی ہوکر۔ پھر ان پر ایمان لانے کے کیا معنی؟‘‘ (بیان القرآن ج۱ ص۵۷۹)
جواب… مولوی صاحب کو اپنی تفسیر بالرائے پر اس قدر ناز ہے کہ جابجا سلف صالحین کے برخلاف صفحات کے صفحات سیاہ کئے ہوئے ہیں۔ خدا جانے وہ بی۔ اے یا ایم۔ اے ڈگری یافتہ نہ تھے یا انہوں نے ایل ایل بی کا امتحان نہ دیا ہوا تھا اس لئے ان کی تفسیر قابل اعتبار نہیں ہے۔ مگر مولوی صاحب کو یاد ہونا چاہئے کہ وہ خیر القرون میں پیدا شدہ، جناب سید المرسلین کے تربیت یافتہ صحابہؓ کی سند حاصل کئے ہوئے۔ اگر اعتبار کے قابل نہیں تو آپ کابیان کس طرح قابل اعتبار ہوسکتا ہے۔ در آنحالیکہ آپ ایک موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکے۔ سچ ہے:
خود ستائی تو خوار کرتی ہے
بھوت سر پر سوار کرتی ہے
اس سے ہوتی ہے سلب عقل سلیم
مرد کو بے وقار کرتی ہے
حضرت! اگر آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ نزول تسلیم کرلیں تو ہمیں تو بڑی خوشی ہوگی اور جھگڑا ہی ختم ہوجائے گا۔ اور آپ کی تمام مشکلیں بھی حل ہوجائیں گی اور یہ تو کوئی مشکل ہی نہیں ہے۔ کہ ’’عام عقیدہ کے مطابق وہ مجدد ہوکر آئیں گے۔ نہ نبی ہوکر پھر ان پر ایمان لانے کے کیا معنی؟‘‘ اس کی مثال تو خود آپ کے گھر میں موجود ہے۔ آپ مرزا صاحب کو مسیح موعود بھی خیال کرتے ہیں اور مجدد بھی۔ اسی بناء پر آپ ان کے ساتھ بھی ایمان رکھتے ہیں۔ پس جب تمام مرزائی مرزا قادیانی کے ساتھ ایمان لانے کے باوجود مسلمان کہلانے پر اصرار کرتے ہیں اور ان کے خیال میں مرزا قادیانی کے ساتھ ایمان لانا در اصل رسول اﷲﷺ کے ساتھ ہی ایمان لانا ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ایمان لانے والے لوگ کیوں مسلمان نہ کہلا سکیں گے۔ درآنحالیکہ وہ حسب فرمان جناب رسول اﷲﷺ حقیقی مسیح موعود ہوں گے جو آنحضرتﷺ کے خلیفہ اور جانشین ہوں گے اور ان کے ساتھ ایمان لانا در اصل رسول اﷲﷺ کے ساتھ ہی ایمان لانا ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ بہ اور موتہ کی ضمیریں بلکہ اس سے پہلی اور پچھلی آیت میں جتنی واحد غائب کی ضمیریں ہیں سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہیں اس سے کسی اور شخص کا مراد لینا جس کا ذکر یہاں نہیں ہے۔ قرآن مجید کی بلاغت اور منشاء کے خلاف ہے اور اس سے رسول اﷲﷺ بھی مر اد نہیں لئے جاسکتے۔ کیونکہ آپ کو اس آیت سے ما قبل وما بعد کی ضمیر سے