لکھ ہی ماری لیکن ثبوت کوئی پیش نہیں کیا اور یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ دعویٰ بلا دلیل باطل ہوتا ہے لہٰذا مولوی صاحب کی یہ تحریر کوئی وقعت نہیں رکھتی۔
ہم نے اوپر لکھا ہے کہ مرزائیوں کا ترجمہ غلط ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے ترجمہ میں لفظ ’’وہ‘‘ زائد ہے جو حدیث کے کسی لفظ کا ترجمہ نہیں اور اسی بناء پر مطلب بھی غلط لیا گیا ہے پس اگر ’’وہ نکال دیا جائے تو ترجمہ بھی صحیح ہوجاتا ہے اور مطلب بھی صاف نکل آتا ہے اور حدیث میں وائو عاطفہ نہیں ہے بلکہ جمع کی ہے۔ دلیل اس کی حضرت جابرؓ کی روایت ہے جو یہ ہے: ’’وعن جابر قال قال رسول اﷲ فینزل عیسیٰ ابن مریم فیقول امیرہم تعالیٰ صلّ لنا فیقول لا ان بعضکم علیٰ بعض امرآء اکرم اﷲ ہذہ الامۃ‘‘ {اور جابرؓ سے روایت ہے اس نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا پس عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے اور امیر امت (امام مہدی) ان سے کہے گا۔ آئو ہمیں نماز پڑھائو پس وہ کہیں گے۔ نہیں (میں امامت نہیں کرتا) بے شک تم میں بعض امیر امام ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بزرگی عطا فرمائی ہے۔}
(مشکوٰۃ، مترجم ج۴ ص۱۲۸، باب نزول عیسیٰ)
یہ حدیث مرزا قادیانی کو بھی تسلیم ہے چنانچہ لکھتے ہیں: ’’حدیث میں آیا ہے کہ مسیح جو آنے والا ہے۔ وہ دوسروں کے پیچھے نماز پڑھے گا۔ ‘‘ (فتاویٰ احمدیہ، جلد اول ص۸۲)
پس اس حدیث مندرجہ بالا سے ظاہر ہے کہ جب عیسیٰ نازل ہوں گے تو وہ امام نہ ہوں گے بلکہ ان کے سوا کوئی دوسرا شخص امام ہوگا جو اس امت میں سے ہوگا اور وہ امام مہدی ہیں۔ جن کا ذکر دوسری احادیث میں بھی موجود ہے۱؎۔ گویا یہ حدیث زیر بحث حدیث کی تفسیر ہے جو ہمارے دعویٰ کی ایک زبر دست دلیل ہے۔ اس سے زیربحث حدیث کا مطلب بالکل صاف ہوجاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی دو علیحدہ علیحدہ ہستیاں ہیں جن کی خبر حضورﷺ نے اس حدیث میں دی ہے۔ فہو المقصود!
اب ہم آیت مذکورہ الصدر کی تفسیر حضرت ابو ہریرہؓ کے سوا دوسرے صحابہ وتابعینؓ کے اقوال سے بیان کرتے ہیں۔
۱؎ دیکھو مشکوٰۃ باب اشراط الساعۃ فصل ثانی۔ خود مرزا قادیانی بھی لکھتے ہیں کہ: ’’آنحضرت پیش گوئی میں فرماتے ہیں کہ وہ مہدی خلق اور خلق میں میری مانند ہوگا یواطی اسمہ واسم ابیہ اسم ابی یعنی میرے نام جیسا اس کا نام ہوگا اور میرے باپ کے نام کی طرح اس کے باپ کا نام۔‘‘ (ازالہ اوہام طبع اول ص۱۴۷،۱۴۸ طبع پنجم ص۶۵، خزائن ج۳ ص۱۷۵)