اب اس حدیث سے بھی صاف ثابت ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود دوبارہ تشریف لائیں گے۔ ان سے اس قسم کی اور بھی بہت سی حدیثیں مروی ہیں۔ جن کے لکھنے کی اس مختصر سے رسالے میں گنجائش نہیں ہے۔ شہادت کے لئے صرف اسی قدر کافی ہیں۔
حدیث ’’امامکم منکم‘‘ کا مطلب: یہ حدیث بھی حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے جو بخاری اور مسلم کے علاوہ مسند امام احمد، بیہقی کی کتاب اسماء والصفات، مشکوٰۃ اور در منثور میں بھی درج ہے۔ پوری حدیث اس طرح پر ہے: ’’عن ابی ہریرہؓ قال قال رسول اﷲﷺ کیف انتم اذا نزل ابن مریم من السماء فیکم وامامکم منکم (بیہقی)‘‘ {حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ ’’تمہارا کیا حال ہوگا جب ابن مریم تم میں آسمان سے نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔}
اس حدیث کا مطلب نہایت صاف اور واضح ہے کہ آنحضرتﷺ نے اس حدیث میں ابن مریم کے نزول اور امام مہدی کے ظہور کی خبر دی ہے۔ مگر مرزائی اس میں تحریف کرکے الٹے معنی کرتے ہیں کہ: ’’اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب ابن مریم تم میں نزول فرما ہوگا اور وہ تمہیں میں سے ایک امام ہوگا۔‘‘ (عسل مصفی ج۱ ص۲۰۲)
خود مرزا قادیانی بھی لکھتے ہیں کہ: ’’بخاری صاحب اپنی صحیح میں صرف امامکم منکم کہہ کر چپ ہوگئے۔ یعنی صحیح بخاری میں صرف یہی مسیح کی تعریف لکھی ہے کہ وہ ایک شخص تم میں سے ہوگا اور تمہارا امام ہوگا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۴۲، خزائن ج۳ ص۱۷۲)
پس اس غلط ترجمہ اور غلط فہمی کی بناء پر مولوی محمد علی صاحب حضرت ابو ہریرہ کو اپنا ہم خیال سمجھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’جو شخص یہ روایت بیان کرتا ہے کہ نازل ہونے والا ابن مریم تمہارا امام تمہیں سے ہوگا۔ وہ یہ عقیدہ نہیں رکھ سکتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود دوبارہ آئیں گے۔‘‘
(بیان القرآن ج۱ ص۵۷۹)
ہم کہتے ہیں کہ جو شخص مندرجہ بالا حدیثوں کی رو سے یہ روایت کرتا ہے کہ نازل ہونے والا ابن مریم آسمان سے اترے گا۔ بادشاہ ہوگا، صلیب کو توڑے گا، خنزیر کو قتل کرے گا، جزیہ کو منسوخ کرے گا اور فج روحاء سے احرام باندھ کر حج کرے گا۔ وہ یہ عقیدہ ہرگز نہیں رکھ سکتا کہ نازل ہونے والا ابن مریم تمہارا امام تمہیں میں سے ہوگا۔ لکھنے کو تو مولوی صاحب نے یہ عبارت