اﷲﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلا فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویفیض المال حتیٰ لا یقبلہ احد حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیراً من الدنیا وما فیہا ثم یقول ابو ہریرۃ فاقرعروا وان شئتم {وان اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ} (بخاری ج۲ ص۴۹۰، مسلم ج۱ ص۸۷)‘‘{ابو ہریرہؓ سے روایت ہے رسول اﷲﷺ نے فرمایا قسم ہے۱؎ اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ضرور بالضرور تم میں ابن مریم حکم اور عدل ہوکر نزول فرمائیں گے اور وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کو ہٹا دیں گے اور مال بہت ہوگا یہاں تک کہ کوئی اس کو قبول نہیں کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک سجدہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔} پھر ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ اگر تم (اس کا ثبوت) چاہو تو پڑھو: ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ (الآیۃ)‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ (مشکوٰۃ باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
اس حدیث کی صحت میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ متفق علیہ ہونے کے علاوہ اس قدر مشہور ومقبول ہے کہ شاید ہی کوئی حدیث یا تفسیر کی کتاب ہوگی جس میں یہ درج نہ ہو اور لطف یہ ہوا کہ مرزا خدا بخش مرزائی نے بھی اپنی کتاب عسل مصفی میں نزول مسیح کے ثبوت میں اسی حدیث کو بخاری کے حوالے سے نقل کرکے لکھا ہے کہ ’’اس حدیث سے حضرت مسیح کے نازل ہونے کا صریح ذکر ہے۔‘‘ (ملاحظہ ہو عسل مصفی، ج۱ ص۲۰۲)
باوجود اس بات کے کہ مرزا خدا بخش نے نقل حدیث میں تھوڑی لفظی تحریف کی ہے کہ ’’یضع الجزیۃ‘‘ کی بجائے یضع الحرب لکھا ہے۔
(دیکھو بخاری مطبوعہ حسینیہ مصر ج۲ ص۱۷۱ باب نزول عیسیٰ)
تاہم ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ انہوں نے اس حدیث کی صحت میں تو انکار نہیں کیا۔ مگر مولوی محمد علی صاحب نے نہ صرف اس حدیث سے انکار کیا ہے بلکہ حضرت ابو ہریرہؓ کے ذمہ یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے کے قائل نہیں۔ چنانچہ ’’بیان القرآن‘‘ جلد اول صفحہ ۵۷۸،۵۷۹ کے نوٹ ۷۶۵ میں لکھتے ہیں۔ ’’حضرت ابوہریرہؓ کی طرف ایک روایت منسوب ہے جس میں نزول ابن مریم کا ذکر کرنے کے بعد انہوں نے فرمایا۔ فاقرؤا ان شئتم وان من اہل الکتاب… جو شخص یہ روایت بیان کرتا ہے کہ
۱؎ مرزا قادیانی لکھتے ہیں قسم بتاتی ہے کہ خبر ظاہری معنی پر محمول ہے نہ اس میں کوئی تاویل ہے نہ اس میں کوئی تاویل ہے نہ استثنائ۔‘‘ (حمامۃ البشریٰ ۱۴، خزائن ج۷ ص۱۹۲)