۳… تفسیر معالم التنزیل میں ہے: ’’وقیل للحسین بن الفضل ہل تجد نزول عیسیٰ فی القرآن قال نعم وقولہ {وکہلاً} وہو لم یکتہل فی الدنیاوانما معناہ وکہلاً بعد نزولہ من السمآئ‘‘ {حسین بن فضل سے پوچھا گیا کہ کیا تو عیسیٰ کا نازل ہونا قرآن مجید میں پاتا ہے؟ اس نے کہا ہاں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے: وکہلاً(یعنی وہ ادھیڑ عمر میں لوگوں سے باتیں کرے گا) اور وہ دنیا میں ادھیڑ عمر کا نہیں ہوا اور اس کا یہی معنی ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہونے کے بعد ادھیڑ عمر کا ہوگا۔} (معالم، ص۱۶۳ سطر۳)
اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہے کہ وہی عیسیٰ بن مریم نزول فرمائیں گے۔ جو آسمان پر اٹھائے گئے تھے۔ ان کے بجائے کوئی اور شخص نہیں آئے گا اگر کوئی ایرا غیرا، نتھو خیرا مسیحیت کا دعویٰ کرے تو وہ ناقابل قبول ہے کیونکہ وہ کذاب ہے۔
حضرت مسیح علیہ السلام نے پہلے ہی انجیل میں خبر دے دی تھی کہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے کہ وہ میں ہی ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔ اس وقت اگر کوئی تم سے کہے کہ دیکھو مسیح یہاں یا دیکھو وہاں ہے تو یقین نہ کرنا کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے اور نشان اور عجیب کام دکھائیں گے۔ تاکہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کردیں لیکن تم خبردار ہو دیکھو میں نے تم سے سب کچھ پہلے ہی کہہ دیا ہے۔
(مرقس باب۱۳ آیت۶ وآیت ۲۱ تا ۲۳)
دوسری آیت یہ ہے جس سے نزول مسیح ثابت ہے: ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیمۃ یکون علیہم شہیدا (نسائ:۱۵۹)‘‘ {اور اہل کتاب میں کوئی نہیں جو اس کے (یعنی عیسیٰ علیہ السلام کے) ساتھ اس کے مرنے سے پہلے ایمان نہ لائے گا اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا۔}
یہ آیت بھی صاف طور پر ثابت کررہی ہے کہ وہی عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ تشریف لائیں گے جو آسمان پر بجسد عنصری اٹھائے گئے تھے کیونکہ اس آیت سے پہلے آیت بل رفعہ اﷲ الیہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ہے اور اس آیت میں ان کے نزول کا اور اسی آیت سے ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابو ہریرہؓ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آنے پر استدلال کیا ہے اور اسی استدلال کے جرم میں مرزا قادیانی نے ان کی توہین کرتے ہوئے انہیں ’’ناقص الفہم‘‘ قرار دیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت یہ ہے: ’’عن ابی ہریرہؓ قال قال رسول