کا معنی یہ ہے کہ میں تجھ کو پورا لینے والا ہوں او ر موت کے بغیر اپنی طرف اٹھانے والاہوں۔
(خازن ج۱ ص۲۴۰)
۳… ابن جریر میں ہے: ’’حدثنا علی بن سہل قال ثنا ضمرہ بن ربیعۃ عن ابن شوذب عن مطر الوراق فی قول اﷲ {انی متوفیک} قال متوفیک من الدنیا ولیس بوفاۃ موت‘‘ یعنی بیان کیاہم سے علی بن سہل نے۔ اس نے کہا ہم سے مضمرہ بن ربیعہ نے ابن شوذب سے بیان کیا اس نے طمر الوراق سے خدا تعالیٰ کے قول ’’انی متوفیک‘‘ میں روایت کی۔ کہا میں پورا لینے والا ہوں تجھ کو دنیا سے، اور وفات سے مراد موت نہیں ہے۔ (ابن جریر ج۳ ص۱۸۳ سطر۲۲،۲۳)
توفی بمعنی مو ت: اور اگر ’’توفی‘‘ کے معنی موت کے کئے جائیں تو بقول نصاریٰ یہ وعدہ بھی پورا ہوچکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مر کر زندہ کئے گئے اور پھر آسمان کی طرف اٹھائے گئے جیسا کہ ابن جریر میں ہے: ’’حدثنا ابن حمید قال ثنا سلمۃ عن ابن اسحاق قال: النصاریٰ یزعمون انہ توفاہ سبع ساعات من النہار ثم احیاہ اﷲ‘‘ یعنی بیان کیا کہ ہم سے ابن حمید نے اس نے کہا ہم سے سلمہ نے اسحاق سے روایت کی اس نے کہا۔ نصاریٰ گمان کرتے ہیں کہ تحقیق اس نے اس کو دن میں سے سات ساعتیں مارا پھر اس کو اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا۔ (ابن جریر ج۳ ص۱۸۴، سطر ۱۵۱)
اور مرزا قادیانی بھی لکھتے ہیں کہ ’’تمام فرقے نصاریٰ کے اسی قول پر متفق نظر آتے ہیں کہ تین دن حضرت عیسیٰ مرے رہے اور پھر قبر میں سے آسمان کی طرف اٹھائے گئے اور چاروں انجیلوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۰۴،۱۰۵، خزائن ج۳ ص۲۲۵)
مگر مسلمانوں کے نزدیک ’’توفی‘‘ بمعنی موت کا وعدہ ابھی پورا نہیں ہوا۔ وہ حضرت عیسیٰ کی دوبارہ تشریف آوری پر پورا کیا جائے گا۔
۱… چنانچہ تفسیر ابن جریر میں ہے: ’’قال ابو جعفر واولی ہذہ الاقوال بالصّحۃ عندنا قال من قال معنی ذلک انی قابضک من الارض ورافعک الی لتواتر الاخبار عن رسول اﷲﷺ انہ قال ینزل عیسیٰ ابن مریم فیقتل الدجال ثم یمکث فی الارض مدۃ ذکرہا اختلفت الروایۃ فی مبلغہا ثم یموت فیصلی علیہ المسلمون ویدفنونہ‘‘ یعنی ابو جعفر نے کہا کہ ان اقوال میں سے بہتر اور صحیح ہمارے نزدیک وہ قول ہے جس نے یہ معنی کیا۔ میں تجھ کو زمین سے پورا لینے والا ہوں اور اپنی طرف