۱… ’’حدثنی المثنی قال ثنا عبداﷲ بن ابی جعفر عن ابیہ عن الربیع فی قولہ {انی متوفیک} قال معنیٰ وفاۃ المنام رفعہ اﷲ فی منامہ‘‘ یعنی ابن جریر فرماتے ہیں کہ مجھ سے مثنیٰ نے بیان کیا اس نے کہا ہم سے عبداللہ بن ابی جعفر نے اپنے باپ سے اور اس نے ربیع سے خدا تعالیٰ کے قول انی متوفیک میں روایت کی۔ کہا وفات کا معنی نیند ہے۔ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نیند کی حالت میں اٹھایا۔ (ابن جریر، ج۳ ص۱۸۳ سطر۱۷)
۲… معالم میں ہے: ’’قال ربیع بن انس المراد بالتوفیٰ النوم وکان عیسیٰ قد نام فرفعہ اﷲ نائماً الی السماء معناہ انی منیمک ورافعک الیّ کما قال اﷲ تعالیٰ {ہو الذی یتوفکم باللیل}‘‘ ای ینیمکم یعنی ربیع بن انس نے کہاتوفی سے مراد نیند ہے اور عیسیٰ سوئے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو سونے کی حالت میں آسمان کی طرف اٹھالیا۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ میں تجھ کو سلانے والا ہوں اور تجھ کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’ہو الذی یتوفکم باللیل‘‘ یعنی سلاتا ہوں تم کو رات کو۔
(معالم ص۱۶۲)
۳… خازن میں ہے: ان المراد بالتوفی النوم۔ ومنہ قولہ عزوجل {اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا} فجعل النوم وفاۃ وکان عیسیٰ قد نام فرفعہ اﷲ وہو نائم لئلاً یلحقہ خوف فمعنی الایۃ {انی متوفیک ورافعک الیّ} ’’یعنی توفی سے مراد نیند ہے اور اسی سے ہے قول خدا تعالیٰ کا {اللہ یتوفی الانفس…الخ} پس بنایا نیند کو وفات اور عیسیٰ علیہ السلام سوئے ہوئے تھے پس اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھالیا درآنحالیکہ وہ نائم تھے تاکہ ان کو خوف لاحق نہ ہو پس آیت کا معنی یہ ہے کہ میں تجھ کو سلانے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ (تفسیر خازن جلد۱ ص۲۴۰)
توفی بمعنی پورا لینا: اگرتوفی کے معنی پورا لینے کے کئے جائیں تو بھی یہ وعدہ پورا ہوچکا کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام پورے بجسد عنصری اٹھائے گئے جیسا کہ ’’درمنثور‘‘ میں ہے۔
۱… ’’واخرج ابن جریر وابن ابی حاتم من وجہ آخر عن الحسن فی الایۃ قال {رفعہ اﷲ} فہو عندہ فی السمائ‘‘ یعنی ابن جریر نے اور ابن ابی حاتم نے دوسری وجہ سے اس آیت میں جن سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اٹھالیا اور وہ اس کے نزدیک آسمان میں ہے۔ (درمنثور ج۲ ص۲۱ سطر۲۰)
۲… خازن میں ہے: ’’معناہ انی قابضک ورافعک الیّٰ من غیر موت‘‘ یعنی اس