اس آیت سے مرزائی صاحبان تو وفات مسیح ثابت کیا کرتے ہیں لیکن حقیقت میں اس سے حیات مسیح اور رفع مسیح ثابت ہوتا ہے۔
اس آیت میں خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے چار وعدے کئے ہیں:
۱… وفات دینے کا وعدہ۔
۲… اپنی طرف اٹھانے کا وعدہ۔
۳… کافروں سے پاک کرنے کا وعدہ اور ۔
۴… ان کے پیروئوں کو فوقیت دینے کا وعدہ۔
یہ چاروں وعدہ مرزائیوں کو بھی مسلم ہے۔ چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے بھی اپنی تفسیر کے (نوٹ ص۴۴۷) میں تسلیم کئے ہیں۔ مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کون کونسا وعدہ پورا ہوچکا ہے سو پچھلے دونوں وعدے (کافروں سے پاک کرنے کا اور پیروئوں کو فوقیت دینے کا وعدہ) تو پورے ہوچکنے کی نسبت فریقین کا اتفاق ہے مگر پہلے دونوں میں اختلاف اور یہی دونوں وعدے اصل مبحث ہیں۔
مرزائیوں کا قول ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو مار کر ان کی روح کو اپنی طرف اٹھالیا اس طرح یہ دونوں وعدے پورے ہوگئے۔ ان کے لئے تو بقول مرزا غالب۔
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
لیکن در اصل یہ خیال کوئی وقعت نہیں رکھتا کیونکہ آیت میں ’’مار کر روح کے اٹھانے کا وعدہ نہیں۔‘‘ بلکہ وفات کا وعدہ الگ ہے اور اپنی طرف اٹھانے کا وعدہ الگ، پس اگر بقول مرزائیاں آپ کی وفات ہوچکی ہے تو اٹھانے کا وعدہ پورا نہ ہوا اور خدا تعالیٰ کی شان میں (نعوذ باﷲ) بیوفائی کا الزام آیا حالانکہ خداوند کریم کی ذات والا صفات بے عیب ہے اور ’’ان اﷲ لا یخلف المیعاد‘‘ اس کی شان میں ہے۔ نیز مرزائیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ’’وفات کے بعد بموجب نص قرآن اور حدیث صحیح کے ہر ایک مومن کی روح عزت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائی جاتی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام، طبع پنجم ص۱۶۱، سطر۱۱،خزائن ج۳ ص۲۹۹) تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت کیا ہوئی جبکہ ان کی روح بھی مرنے کے بعد ہی اٹھائی گئی اور ’’رافعک الیّ کا وعدہ کیا؟‘‘
اصل بات تو یہ ہے کہ مر زائیوں کے سرپر خود غرضی کا بھوت سوارہے اس لئے قرآن شریف میں تحریف کرتے ہیں اور حدیث شریف کو چوہوں کی طرح کتر رہے ہیں جیسا کہ مرزا