قرار دینا اورآنحضرتﷺ کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں۔ گومعناًصحیح ہے۔ جیسا کہ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ نے تحفہ اثناء عشریہ وغیرہ میں تصریح کی ہے۔ پادریوں کی پہیلی ایک میں تین اورتین میں ایک کے حل کرنے میں اتنی دقت نہیں جتنی مشکل مرزاقادیانی کے معماد ارالہام :’’انت منی وانامنک‘‘ کے سلجھانے میں پیش آتی ہے۔ اموران الٰہی مبعوث ہوکر ایک ہی مرکز پر ٹھہرتے ہیں اورلوگوں کو دائرہ ہدایت میں لاتے ہیں۔کوئی ان میں سے اپنے نصب العین کو چھوڑتا ہوا نہیں دیکھاگیا۔
مرزاقادیانی کہیں عیسیٰ ہیںاور کہیں مثیل مسیح۔ کہیں مہدی ہیں کہیں کرشن، مرزائی اسلام نے لوگوںکے دلوں سے رہے سہے ایمان کی جڑکھوکھلی کرنی شروع کردی لاحول ولا قوۃ الا باﷲ اس لئے کہ مرزا قادیانی کی پیشین گوئیاں اور الہامات پڑھ پڑھ کر غور پسند دل میں کیا یہ نہیں گزرتاہوگا کہ جب اس ہوشیاری اور روشنی کے زمانہ میں اچھے اچھے نوجوانوں کی عقل مار کر معتقدبنانے والے اور کلمہ پڑھانے والے چالاک آدمی ہوگئے تو حضرت محمدﷺ کے زمانے کے سیدھے سادے لوگوں کا پھندے میں لے آنا کیا ہی مشکل ہو گا۔ان کے معجزات وپیشین گوئیاں بھی ایسے وزن اورحقیقت کی ہوں گی۔
مرزاقادیانی نے بڑے شدومد سے دعویٰ کیاتھا کہ میرا ایک عورت(محمدی بیگم) سے نکاح ہونا ضرور ہے۔جو آسمان پر ان سے پڑھا جاچکا ہے۔ مگر وہ بی بی باوجود ہزار کوششوں کے ان کے نکاح میں نہ آئیں ۔بلکہ اسی زمانہ میں ایک دوسرے شریف انسان کی بی بی ہوئیں۔ مرزاقادیانی نے جب دیکھا کہ اب آسمانی منکوحہ کے ملنے کی کوئی امید نہیں تب انہوں نے حقیقت الوحی میں لکھ دیا کہ خدا جس خبر اوروعدے کو چاہے پورا کرے اور جس کو چاہے باطل کر دے۔اس پیشین گوئی کے پورا ہونے سے قبل مرزاقادیانی نے ۲۶ ربیع الثانی۱۳۲۶ھ کو لاہور میں عارضہ ہیضہ یا دردگردہ سے انتقال کیا۔
( ازالہ اوہام واربعین نمبر۳ص۳۲،خزائن ج۱۷ص۴۲۲) میں مرزاقادیانی کا الہام یہ ہے کہ میری عمر ۸۰ سال کی ہے۔مرزاقادیانی کی سوانح عمری جو ان کے خاص مرید نے (عصل مصنفی ج۲ ص۶۳۶) میں لکھی ہے۔اس میں سال پیدائش ۱۸۳۹یا۱۸۴۰ ء لکھا ہے۔ اس حساب سے مرزاقادیانی کی عمر۶۹یا ۶۸ سال ہوتی ہے اورقاضی فضل احمد نے اپنی کتاب کلمہ فضل رحمانی میں