لکھے چلے جاتے ہیں اورباقی اجزاء اسلام کو نظر انداز کردیاگیا ہے۔ اگر انصاف پذیر دل لے کر غور کیاجائے توسرسید قانون فطرت ونیچر کی حمایت میں مسیح علیہ السلام کو مارتے ہیں۔ مرزاقادیانی اس لئے ان کی ہلاکت کے درپے تھے کہ اسامی خالی ہو اورہمیں ملے۔ مرزاقادیانی کو معلوم نہیں کیا لعل لگ گئے ہوئے تھے کہ اسلام کی حیات کا دارومدار صرف ان کی ذات پر منحصر تھا جو آج تیرہ سو سال کے بعد پیداہوئے اوربقول مرزاقادیانی کے اﷲ نے ان سے فرمایا کہ جس طرف تیرا منہ ہے اسی طرف میرا منہ ہے اورتو میری مراد ہے۔ (کتاب البریہ ص۷۶،۷۷، خزائن ج۱۳ ص۱۰۱،۱۰۲) یہ نہایت گستاخانہ کلمات ہیں جو حقیقت الوحی وغیرہ میں موجود ہیں۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ تو قرآن مجید کو نوراورحیات بخش فرماتا ہے اورمرزائی اس کو مردہ تعلیمات اوربے اثر کلام قرار دیتے ہیں۔اس سے بڑھ کر قرآن مجید کی اورتوہین نہیں ہوسکتی۔ یہ مسئلہ کہ مرزاقادیانی کے مانے پرنجات منحصر ہے۔ایساخبیث ہے کہ اس سے ساری خدائی باطل ٹھہرتی ہے۔ کیونکہ ربوبیت باری تعالیٰ کے خلاف ہے ۔ اس لئے کہ جس قدر کسی شے کی زیادہ ضرورت ہے۔اسی قدر رب العالمین نے وہ چیز زیادہ عام کی ہے۔ تمام قوانین رحمت ومغفرت ایک مرزا ہی کے تابع ہوئے۔ خداوند عالم اوراسلام کی توہین اس سے بڑھ کر اورکیا ہو سکتی ہے قرآن اوراسلام کی ہدایت کے مطابق عمل صالح کرنا اوربدی سے بچنا موجب نجات نہیں ہوسکتی ہے ۔تاوقتیکہ مرزا کو ساتھ ساتھ نبی نہ ماناجائے۔ مرزاقادیانی نے اہل اسلام پر سب سے زیادہ بڑھ کر ظلم یہ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے مریدوں کو حکم عام دے دیا ہے اور تحریر کر گئے ہیں کہ وہ باقی تمام مسلمانوں کو مسلمان نہ سمجھیں اورنہ ان کے جنازے اورنماز وغیرہ میں شامل ہوں اور نہ انہیں السلام علیکم کہیں۔
جیسا کہ حقیقت الوحی اوران کے خلیفہ کی کتاب انوار خلافت ص ۹۲میں ہے ۔مرزا قادیانی کا الہام یہ ہے کہ: ’’خدا مجھ سے ہے اور میں خدا سے ہوں۔‘‘(حقیقت الوحی ص۷۴،خزائن ج۲۲ص۷۷) ’’اور اگر خدا مجھے پیدا نہ کرتا تو آسمان وزمین کو نہ پیدا کرتا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۹۹،خزائن ج۲۲ص۱۰۲)
حالانکہ خاتم النبیین سرور کائنات محمد ﷺکے حق میں بھی اﷲ تعالیٰ نے ایسا نہیں فرمایا اوریہ جو مشہور ہے :’’لولاک لماخلقت الافلاک‘‘ یہ حدیث موضوع ہے۔اسے حدیث قدسی