میں کوئی منافات نہیں۔اس لئے کہ بیت المقدس دمشق کی شرقی جانب ہے اورمسلمانوں کا کیمپ وہیں ہوگا اوراردن نواح بیت المقدس کا نام ہے۔ کمافی الصحاح وغیرہ اوربیت المقدس اس میں داخل ہے اوربیت المقدس میں اگرچہ منارہ نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے سے پہلے بنے گا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ وہ بعد میں اترنے ان کے زمین پر سات برس ٹھہریں گے اورابن جوزیؒ نے عبداللہ بن عمرؓ سے کتاب الوفا میں روایت کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین پر اتریں گے اور۴۵برس تک زندہ رہیں گے پھر وفات پائیں گے اورقبر مبارک رسول اﷲﷺ میں دفن ہوںگے۔
علماء نے دونوں روایتوں کی تطبیق میں گفتگو کی ہے کہ بعض علماء نے کہا ہے کہ حضورﷺ کے اس قول میں:’’الاانہ لانبی بعدی‘‘ کی دلیل ہے ۔اس مطلب پر کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب اتریں گے توامت محمدیہ میں سے ایک حاکم ہوکر اتریں گے۔لوگوں کو شریعت محمدی کی طرف بلائیں گے۔ نبی صاحب شریعت ہوکر نہیں اتریں گے۔میرے نزدیک اس میں کوئی منافات نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی ہو کر اتریں اورمحمد رسول ﷺکی شرع کے احکام بیان کرنے میں ان کے تابع ہوں۔ گویا احکام ان کی وحی کے ذریعہ سے پہنچیں اور:’’الاانہ لانبی بعدی‘‘ کے معنی یوں کئے جائیں گے کہ نیا کوئی نبیﷺ کے بعدپیدا نہ ہوگا۔ اس لئے کہ آنحضرتﷺ خاتم پیغمبران ہیں۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اس موقع پر اپنے رسالہ الخطاب الملیح میں بہت اچھی تقریر فرمائی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تابع شرع محمدی ہوکر تشریف لانا یقینی ہے۔اس میں نہ ختم نبوت میں قدح لازم آتا ہے نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نبوت سے معزول ہونا لازم آتا ہے۔کیونکہ وہ اس وقت نبی بھی ہوں گے اورتابع دوسرے نبی یعنی ہمارے حضورﷺ کے بھی ہوں گے۔ جس طرح حضرت ہارون علیہ السلام خود بھی نبی تھے اورشریعت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تابع تھے۔ پھر بھی تابع ہونے سے معزول ہونا لازم نہیں آیا۔ البتہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت صاحب شریعت مستقلہ ہوتے تو حضورﷺ کو اسی وقت نبوت عطاء ہوتی۔پہلے زمانہ میں نبوت نہ مل چکتی تو حضورﷺ پر نبوت کا ختم نہ ہونا بے شک لازم آتا۔مگر جب ایسا نہیں ہے بلکہ ایک ایسے نبی جن کو حضورﷺ کے زمانے سے پہلے نبوت مل چکی ہے۔ حضورﷺ کے تابع شرع ہوکر آئیں گے تو اس صورت میں نہ حضورﷺ کی ابدیت شرعیت میں کوئی خلل ہوا اورنہ ختم نبوت میں کوئی قدح ہوا۔اگر صرف اتباع کا نام معزولی ہے تو