حدیث صاف تصریح ہے:’’لوکان موسیٰ حیالماوسعہ الااتباعی‘‘ اس بناء پر معنی حدیث کے یہ ہوناچاہئے کہ اگر موسی علیہ السلام میرے وقت میں زندہ ہوتے تو نبوت سے معزول ہو جاتے۔پس یہی سوال ہم کرتے ہیں کہ اس صورت میں موسیٰ علیہ السلام کی کیاخطا تھی جو وہ نبوت سے معزول کردیئے جاتے۔انتہیٰ ۔مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ: ’’میں مسیح ابن مریم ہوں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۸۸،۸۹،خزائن ج۳۲ص۹۲،۹۱)
اصل عبارت یہ ہے :’’ الحمدﷲ الذی جعلک المسیح ابن مریم لایسئل عمایفعل وھم یسئلون یعنی اس خدا کی تعریف ہے جس نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا۔وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا اورلوگ پوچھے جاتے ہیں۔‘‘
اہل اسلام پر مخفی نہ رہے کہ یہاں مرزاقادیانی مسیح ابن مریم ہونے کا صریح دعویٰ کررہے ہیں اوریہ بھی معلوم ہو کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے: ’’من امر ربی‘‘ جو دلیل قطعی سے ثابت ہے۔لہٰذا مرزاقادیانی علیہ ماعلیہ ابن غلام مرتضیٰ کسی نامعلوم نطفے سے پیدا ہوئے ہیں ۔اس لئے کہ باپ غلام مرتضیٰ سے صریح انکار کرتے ہوئے دعویٰ مسیح ابن مریم ہونے کا رکھتے ہیں۔ چونکہ شاید مرزاقادیانی بن غلام مرتضیٰ کو یہ معلوم نہ تھا کہ عرب کا یہ مقولہ ہے کہ :’’من ادعی الی اب غیرہ فہو ابن حرام‘‘یعنی جو اپنے باپ سے انکار کرے وہ ابن حرام ہے۔یعنی حرام زادہ ہے :’’اومن انکرنسب ابیہ فھوبن لقطۃ‘‘ یہ دونوں مقولے عرب میں حرامی النسل کے لئے ضرب المثل ہیں۔ اس بارے میں چند احادیث بھی کتب احادیث میں وارد ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جو اپنے کو غیرباپ کی طرف منسوب کرے وہ ملعون جہنمی ہے۔
الغرض مرزاغلام احمد قادیانی کتاب حقیقت الوحی وغیرہ میں کہتے ہیں کہ یہ بات صحیح نہیں کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام آسمان پر اٹھا لئے گئے اور وہ زندہ ہیں اورپھر لوٹ کر دنیا میں آئیں گے۔کیونکہ اس زمانہ میں خدائے تعالیٰ نے چودھویں صدی کے سر پر مجھے مبعوث فرما کر اس پیشین گوئی کی معقولیت کو کھول دیا اورظاہر فرمایا کہ مسیح ابن مریم یعنی مسیح موعود تو ہی ہے۔
پھرمرزاغلام احمد قادیانی کہتے ہیں کہ ہرگز رفع جسمانی مسیح ابن مریم کا نہیں ہوا۔ہاں ایک سو بیس برس کے بعد رفع روحانی ہوئی اور نہ صلیب کے دنوں میں رفع روحانی ہوئی۔ کیونکہ پیلاطوس گورنر قیصر کے ہاتھ میں عیسیٰ علیہ السلام کے مارڈالنے کی کارروائی تھی۔اس کی بیوی نے