شان میں کیسی بے ادبی اورگستاخی کرتے ہیں۔ترجمہ میں آپ ؐکے لئے ’’ان کے لئے ‘‘نہیں لکھتے بلکہ’’ اس کے لئے ‘‘لکھتے ہیں اورآپؐ کی شان پر اپنی شان کوبڑھا کر مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ جس کا ایک نشان ظاہر ہوا اس پر تو ایمان لاتے ہو اوراس کے دونشان یکے بادیگرے ظاہر ہوئے ہوں اس سے انکار کرتے ہو۔
اب اس کو بھی دیکھئے کہ مرزاقادیانی قرآن مجید کی تحدی کو کس طرح نعوذباﷲ باطل کرتے ہیں۔ذیل میں معہ ان کے ترجمہ کے لکھتا ہو۔
وکان کلام معجزایۃلہ
کذلک لی قول علے الکل یبھر
اور اس کے معجزات میں سے معجزانہ کلام بھی تھا۔ اسی طرح مجھے وہ کلام دیا گیا جو سب پر غالب ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷۱،خزائن ج۱۹ص۱۸۳)
ناظرین! مرزاقادیانی کی گستاخی کو دیکھئے ۔پھر حضور ؐکی شان میں’’اس کے‘‘لکھا اور کہتے ہیں کہ جس طرح حضورﷺ کے معجزانہ کلام قرآن مجید تھا ۔اسی طرح میرے لئے یہ قصیدہ اعجازیہ ہے۔
قرآن کیا بلکہ تمام ابنیاء کے معجزانہ کلام ہوں تو مرزاقادیانی کا معجزانہ کلام سب پر غالب ہے۔ نعوذباﷲ من ذٰلک الھفوات۔ ہمارے محترم جناب مولانا غنیمت حسین صاحب مخدوم چکی مونگیری(جو علاوہ فضل علمی کے بڑے ادیب ہیں۔ جن کی ادبی قابلیت تمام صوبہ بہار میں مسلم ہے۔عربی کے مستند شاعرہیں)آپ کا کلام بلاغت نظام فصحائے عرب کی یاد دلاتا ہے۔ چنانچہ مولانا ممدوح نے مرزاقادیانی کے اس مصنوعی اعجاز کو دو طرح پرباطل کیا ہے اور دونوں کو دو حصوں میں لکھا ہے۔ پہلے حصہ کا نام ابطال اعجاز مرزاحصہ اول ہے۔ اس میں تھوڑی تمہید ہے جس میں قرآن مجید کا سچا اور دائمی معجزہ دکھاتے ہوئے مرزاقادیانی کا عجز ظاہر کر کے پھر اس کے قصیدہ اعجازیہ کی تنقید کی ہے اوراچھی طرح پر ان کے اعجاز کی قلعی کھول دی اوراس کی صرفی ،نحوی ، ادبی، عروصی اورتوافی کی غلطیاں دکھائی ہیں اور سرقات مزید برآں ہیں۔
چنانچہ مرزاقادیانی کے قصیدے کے پانچ سو بتیس(۵۳۲)اشعار ہیں اورغلطیوں کی تعداد بھی پانچ سو بتیس(۵۳۲)ہی ہے۔ تقریباً کوئی شعر ان کا غلطی سے خالی نہیں ہے۔قصیدہ کیا ہے چونٹی بھرا کباب ہے اوریہ حصہ اوّل ابطال اعجاز مرزا اس کا ۱۳۳۳ھ میں شائع ہوا ہے۔ اسے رجسٹری کر کے خلیفہ قادیان مرزامحمود کی خدمت میں بھیجا گیا۔ اب ۱۳۴۲ھ ہے کسی نے مرزاقادیانی کے اشعار سے ایک غلطی کو بھی نہ اٹھایا ۔ دوسرے حصہ ابطال اعجاز کی تمہید میں