الحق ومامن الہ الااﷲ ،وان اﷲ لھو العزیز الحکیم، فان تولوا فان اﷲ علیم باالمفسدین (آل عمران:۶۲،۶۳)‘‘ جب دونوں قوموں نے مباہلہ کو اختیا ر نہ کیا اور اپنے اعتقادات باطلہ سے بھی باز نہ آئے ۔تب اللہ نے یہ فرمایا :’’قل یااھل الکتاب نعالوالی کلمۃ سواء بیناوبینکم الانعبدالااﷲ ولانشرک بہ شیئا ولایتخذ بعضنابعضا اربابا من دون اﷲ، فان تولوا فقولوااشھد وابانا مسلمون(آل عمران:۶۴)‘‘ یہی جھگڑا مختلف صورتوں میں دور تک چلاجاتا ہے۔پس نتیجہ بحث ہذا کا یہ ہوا کہ دونوں قومیں یہود اورنصاریٰ نے اپنے اپنے اعتقادات باطلہ کو نہ چھوڑا۔جس طرح مرزاقادیانی اب یہودیوں کی طرح اعتقادنہیں چھوڑتے۔
غرض ہشتم اختلافات اعتقادات نصاریٰ بحق عیسیٰ علیہ السلام کے بیان میں
اے ناظرین! یہاں آیت میں اعتقاد ونصاریٰ ورداعتقاد بیان کئے جاتے ہیں۔
اوّل… وہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا جانتے تھے :’’وقالت النصاری المسیح ابن اﷲ (التوبہ:۳۰)‘‘ جواب :’’ذلک قولھم بافواھھم ‘‘
دوم… جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا جانتے ہیں:’’لقد کفرالذین قالوان اﷲ ھو المسیح ابن مریم(المائدہ:۷۲)‘‘ جواب :’’ماالمسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبل الرسل(المائدہ:۷۵)‘‘
سوم… اعتقاد تثلیث:’’لقد کفر الذین قالوا ان اﷲ ثالث ثلثۃ (المائدہ:۷۳)‘‘ جواب: ’’لاتقولوا ثلثۃ‘‘
غرض نہم احسان باری تعالیٰ کے بیان میں
’’اذقال اﷲ یاعیسی ابن مریم اذکر نعمتی علیک وعلٰے والدتک اذا ایدتک بروح القدس ،یکلم الناس فی المہد وکھلا واذعلمتک الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل واذتخلق من الطین کھیٔۃ الطیرباذنی فتنفح فیہا فتکون طیراباذنی وتیری الاکمہ والابرص باذنی، واذاتخرج الموتی باذنی واذکففت بنی اسرائیل عنک اذجئتھم بالبینات فقال الذین کفروا منھم ما ہذا الا سحرمبین (المائدہ:۱۱۰)‘‘
اے ارباب بصیرت مذکورہ بالا آیات سے آپ کو ثابت ہوگیا ہوگا کہ تمام معجزے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صحیح ہیں۔ کیونکہ اس موقع پربطور احسان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو