اعتقاد نمبر۷… سید مرحوم نے حروف مقطعات ’’ا لم ‘‘کی غرض بیان فرمائی ہے ۔ہم طوالت کے لئے بعینہ عبارت نہیں لکھتے۔صرف خلاصہ ان کی عبارت کا ناظرین کو دکھلاتے ہیں۔وہ یہ ہے۔ ’’ آپ نے (الف)سے مراد امر بالمعروف لیا ہے۔(لام) سے مراد لیل ونہار لیا ہے۔(م) سے مراد موت وحیات لیا ہے۔ مگر یہ استنباط سید مرحوم کا صحیح نہیں۔کیوں کہ صورت روم، سورت لقمان، سورت عنکبوت، سورت سجدہ پر حالانکہ یہی حروف مقطعات موجود ہیں ۔مگر ان میں کوئی احکام امر بالمعروف نہیں بلکہ صرف توحید کا بیان ہے۔ لہٰذا سیدمرحوم کا یہ استنباط بھی صحیح نہیں۔ اب یہاں سورت بقر پر پانچ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
سوال اوّل… سورت بقر پر حروف مقطعات ’’ا لم ‘‘کس غرض کے لئے آئے۔
سوال دوم… لفظً اسم اشارہ کا مشاراً الیہ کون ہے۔
سوال سوم… ’’ذلک الکتاب لاریب فیہ ‘‘کس سے مراد ہے۔
سوال چہارم… ’’ھدے للمتقین‘‘ کس کی صفت ہے۔
سوال پنجم… سورت بقرہ بعد فاتحہ کے کس غرض سے لائی گئی۔ یعنے ان میں کیا ارتباط ہے۔
جواب سوال اوّل… ’’ا لم ‘‘یاد رہے کہ جن سورتوں میں یہ حروف آئے ہیں ۔ سب میں تین غرضیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زمانہ نزول قرآن شریف میں تین گروہ تھے۔ بت پرست، موسائی، عیسائی۔ پھر موسائی عزیز کو خدا کا بیٹا جانتے تھے۔اوراحکام اسلام میں کئی طرح کے اختلاف کرتے تھے۔ رشوت کی وجہ سے جھوٹے فتوے دیا کرتے تھے۔ اورنصاریٰ بعض عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کابیٹا اوربعض خود خدا اوربعض تثلیث پر یقین رکھتے تھے۔ چونکہ یہ تینوں فریق توحید پر قائم نہ تھے۔ لہٰذا محمدؐ رسول اﷲ اورقرآن شریف کی ضرورت ہوئی۔ چنانچہ یہی علّت پروردگار نے: ’’لم یکن الذین کفر وامن اھل الکتٰب والمشرکین منفکین حتی تأتی ھم البینۃ (البینۃ :۱)‘‘ میں نزول قرآن شریف کے بیان فرمائی ۔پس آنحضرتﷺ تینوں فریق مشرک موسائی، عیسائی کو ہدایت توحید فرمانے لگے۔ تو ہر سہ فریق نے حضورﷺ کی تکذیب کی۔ یہودی کہتے تھے کہ یہ قرآن پہلی کہانیاں ہیں۔ بت پرست کہتے تھے کہ یہ ساحر ہے۔ الغرض بت پرست ہو ۔موسائی ہو ۔عیسائی اپنے اپنے اعتقاد سے باز نہ آئے ۔گو آہستہ آہستہ تینوں فریقوں میں سے بہت سے ایمان بھی لے آئے تاہم آج تک وہی فریق موجود ہیں۔ ناظرین! کو یہ ثابت ہوگیا ہوگا کہ تین امر وں کامخالفین مذکورہ بالا کو مناناپروردگار کا اصل مقصد تھا۔ وہ تین امر یہ ہیں۔