غلطی سوم… تمام قرآن شریف میں انتیس سورتیں ہیں۔ جن پر حروف مقطعات ’’ا لم ‘‘ آئے ہیں۔ اگر ہم سید مرحوم کے لکھنے پر ہی یقین کریں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں ۔تو یہ مشکل ہے کہ مخالفین کہیں گے کہ قرآن اچھی خدا کی کلام ہے کہ انتیس سورتوں کے نام ایک ہی رکھ دیا ۔کیا خداتعالیٰ کو کوئی دوسرا نام رکھنا بھی نہیں آتا ۔معاذ اﷲ
غلطی چہارم… لفظ ذا اسم اشارہ واحد مذکر غائب ہے۔مشاراالیہ اس کا ماقبل ہوتا ہے۔ اپنے مابعد الکتاب کو بتایا ہے۔
غلطی پنجم… سورتوں کے نام حضرت ﷺکے زمانہ میں ہی رکھے گئے تھے۔یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ حضرتﷺ نے خود رکھے یا وحی جبرائیل علیہ السلام نے بتلائے۔ بہرحال حضرتؐکے زمانہ میں بھی نام سورتوں کے جو کہ آج کل مشہور ہیں ،لئے جاتے تھے۔ اورمنزلیں بھی حضرتﷺ کے زمانہ میں ہی بنی ہیں۔دیکھو بخاری کتاب فضائل القرآن باب ۱نزل القرآن علی سبعۃ احرف عن عمر ابن الخطابؓ سے حدیث مروی ہے کہ ہشام ابن حکیم نے صبح کی نماز میں سورت فرقان پڑھی۔ اختلاف قرأت کے ساتھ پھر اصحابوں میں جھگڑا پڑ گیا۔آخر حضرت ﷺ کے پاس جھگڑا پیش کیاگیا۔حضرتﷺ نے ہشام ابن حکیم کو فرمایا کہ سورت فرقان پڑھ نتیجہ بحث ہذا کا یہ ہوا کہ اگر اس وقت سورتوں کے نام مقرر نہ ہوتے تو آنحضرتﷺ ہشام ابن حکیم کو کیوں فرماتے کہ سورت فرقان پڑھ۔پس ثابت ہوا کہ سورتوں کے نام زمانہ حضرت ﷺ میں مقرر ہوچکے تھے۔
غلطی ششم… سید مرحوم نے حروف مقطعات ’’ا لم ‘‘ کومبتدا بنایا اورذلک مبتداثانی اور الکتاب اس کی خبر جب حروف ’’ا لم ‘‘ مقطعات ہوئے ۔یعنی ان کو عبارت سے کوئی تعلق ہی نہ ہوا تو ’’ا لم ‘‘مبتداء کیوں کر بن سکتا ہے اورذلک مبتداء ثانی کیونکر ہوسکتا ہے۔پھر الکتاب اس کی خبر کسی صورت میں نہیں بن سکتی۔سید مرحوم نے یہ سوچا کہ مبتداء اورخبر میں اسناد ہوتا ہے ۔حالانکہ کوئی اسناد نہیں۔
غلطی ہفتم… حروف مقطعات ’’ا لم ‘‘حالانکہ انتیس سورتوں پر آئے ہیں مگر ’’ذلک الکتاب لاریب فیہ ‘‘ماسوا بقر کے کسی اورسورت پر انیتس سورتوں میں نہیں لکھے گئے۔ پس اگر یہ تمام سورتیں متحد المضمون ہوئیں جیسا کہ سید مرحوم نے وہم کیا ہے تو ’’ذلک الکتاب لاریب فیہ ‘‘ کا لانا بھی ضروری ہوتا۔چونکہ ’’ا لم ‘‘حروف مقطعات ہی ہیں نہ اسم سورتوں گے۔ لہٰذا پروردگار نے باقی سورتوں ’’ا لم ‘‘والی میں ’’ذلک الکتاب لاریب فیہ ‘‘نہ فرمایا۔