امر اوّل… اللہ ایک ہے۔
امردوم… قرآن شریف منزل من اللہ ہے۔
امر سوم… یہ پیغمبر رسول اﷲ ﷺ ہے۔پس جن سورتوں میں انہی تینوں امورمذکورہ بالا کی مخالفوں کی منانے کی ضرورت تھی۔ان سب سورتوں میں حروف مقطعات ’’ا لم ‘‘آئے ہیں۔ جو کہ الف سے مراد :’’والہٰکم الہ واحد‘‘ ہے۔جن میں وہ تینوں فریق اختلاف کرتے تھے اورلام سے مراد ہذا کتاب ’’من لدن ‘‘ ہے۔جس کی نسبت وہ تینوں فریق اختلاف کرتے تھے۔ اور میم سے مراد ’’محمد رسول اﷲ‘‘ ہیں۔
خلاصہ مضمون مذکورہ بالا کا یہ ہوا ۔اللہ ایک ہے۔ قرآن شریف سچ ہے۔ محمدؐ برحق ہے۔ جو مراد حروف مقطعات’’ا لم ‘‘کی ہم نے بیان کی ۔وہ بعینہ سورت بقر کی آیات مفصلہ ذیل سے ناظرین دیکھ سکتے ہیں۔دیکھو الف، کا مصداق آیت ’’والھکم الہ واحد ‘‘ ( بقر:۱۶۳)لام، کا مصدقہ آیت :’’الکتاب لاریب فیہ ایضاً ولقد انزلناالیک آیات بینا ت ‘‘میم، کا مصدقہ آیت :’’انا ارسلنک بالحق بشیراونذیرا ایضاً وانک لمن المرسلین (بقر:رکوع۲۲)‘‘
سوال دوم… ذاء اسم اشارہ کا مشاراً الیہ کون ہے۔
جواب… یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ ہر ایک سورت ایک کتاب ہے۔اور یہ بھی بلاشبہ تسلیم ہے کہ سورت فاتحہ اجمالی قرآن شریف ہے۔اوراس میں کوئی شک نہیں کہ سورت فاتحہ کا طرز کلام ایسا ہے کہ گویا بندہ کی کلام ہے مثلاً:’’ایاک نعبد وایاک نستعین‘‘ سے بلاشبہ یہ شک ضرور پڑتا ہے کہ یہ کلام خدا کا نہیں بلکہ بندہ کا ہے۔ گوصاحب علم سمجھتے ہیں کہ پروردگار نے طریقہ یاد کرنے اپنے کا سکھایا ہے۔اورقل اس میں مقدر ہے لیکن ناواقفوں اور مخالفوں کو کہ جس طرح کہ زمانہ حال میں فاتحہ کی نسبت شک پڑتے ہیں۔اسی طرح زمانہ نزول قرآن شریف میں بھی مخالف کہا کرتے تھے۔لہٰذاشروع سورت بقر میں پرور دگار نے اسم اشارہ بیان فرمایا ہے جس کا مشاراًالیہ وہی کتاب سورت فاتحہ ہے۔جس میںمخالفوں کو کلام الٰہی ہونے میں شک تھا۔ اس کی تصدیق کے لئے اسم اشارہ لانا ضروری تھاتاکہ سورت فاتحہ اورسورت بقر میں ارتباط پیدا ہولہٰذا باقی سورتوں میں حروف مقطعات’’ا لم ‘‘والی پر یہ طرز اختیار نہیں کی گئی۔
سوال سوم … ’’الکتاب لاریب فیہ‘ ‘کس سے معاد ہے۔