اعتقاد نمبر۷… سید مرحوم کے نزدیک قرآن شریف کی سورتوں کے نام نہ تو خدا تعالیٰ نے رکھے ہیں اور نہ رسول نے بلکہ علماء نے خود بنا لئے ہیں۔ مگر یہ اعتقاد سید مرحوم کا بھی صحیح نہیں۔ ہم اپنے دعوے کو آخر میں بیان کریں گے۔پہلے ہم سید مرحوم کا اعتقاد لکھتے ہیں جو کہ انہوں نے اپنی تفسیر میں تحریر کیا ہے۔ وہ عبارت سید مرحوم کی یہ ہے:’’ الم یعنی سورت بقر یہ سورت ان سورتوں میں سے ہے جن کو خدا نے ان کے نام سے موسوم کیا ہے ۔ یہ حروف مقطعات ان سورتوں کے نام ہیں۔ پھر لکھتے ہیں علماء اسلام نے رفع التباس کے لئے ان سورتوں کے نام کے ساتھ جن کے متحد نام تھے۔ یا جن میں حروف مقطعات زیادہ تھے۔یا کسی سورت کے اہم مضمون پر زیادہ وضاحت سے اشارہ کرنے کی غرض سے اورنیز ان سورتوں کے لئے جو کسی نام سے موسوم نہ تھیں۔ اسے یہودی قاعدہ کے مطابق اسی سورت میں سے کوئی لفظ اس سورت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے منتخب کیا۔جو رفتہ رفتہ بطور ان سورتوں کے نام کے مقصد ہونے لگے۔مگر درحقیقت وہ الفاظ ہیں جو علماء نے ان سورتوں کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اختیار کر لئے ہیں۔‘‘ پھر لکھتے ہیں ’’ا لم ‘‘ جو اس سورت کا نام ہے (یعنی بقر کا)اس سورت کا نام مبتداء ہے اورذلک مبتداء ثانی ہے اور الکتاب اس کی خبر ہے اوریہ متبداء وخبر مل کر خبر ہیں۔ یعنی ’’ا لم ‘‘ کا مسمے ذلک الکتاب پرمحمول ہے۔‘‘
ناظرین! کو سرسیدمرحوم کی عبارت سے ثابت ہوگیا ہوگا کہ ان کے نزدیک سورتوں کے نام علماء نے یہودیوں کی طرح اپنی طرف سے اختیار کئے ہیں اورسید مرحوم کے نزدیک انتیس سورتیں ہیں جن پر حروف مقطعات ’’ا لم ‘‘ آیا ہے۔وہی ’’ا لم ‘‘ ان کا نام ہے۔مگر ہم کہتے ہیں کہ یہ حروف مقطعات ’’ا لم ‘‘ ان سورتوں کے نام نہیں ۔اس بحث میں سید مرحوم نے سات غلطیاں کی ہیں۔
غلطی اوّل… حروف مقطعات کو سورت کا نام لکھا۔ حالانکہ مقطعات کا لفظی معنے خود دلالت کرتا ہے کہ سورت کے ساتھ ان کو ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ اسی وجہ سے ان کو حروف مقطعات بھی کہا جاتا ہے۔ پس جب ’’ا لم ‘‘ مقطعات ہوئے تو سورت کا اسم کیوں کر بن سکتے ہیں۔
غلطی دوم… ’’ا لم ‘‘ تین حروف ہیں۔ ہر ایک جدا حرف ہے اورہر ایک علیحدہ اسم ہے۔ مثلاً الف ایک اسم ہے۔ لام ایک اسم ہے۔میم ایک اسم ہے۔پھر یہ تین اسم ہوئے ۔پھر تین اسموں کا ایک سمجھنا علانیہ غلط ہے۔