’’بہت سے نبی قتل ہوئے تھے۔‘‘ اور اگر یہ قانون بعد میں وضع ہوا ہے تو کب سے وضع ہوا؟ اور پھر نبوت کے ختم ہوجانے کے بعد اس کے وضع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور پھر وہ ’’قاعدہ کلیہ‘‘ کس طرح ہوا؟
علاوہ ازیں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ مفتری کو کم از کم اور زیادہ سے زیادہ کتنی مدت کے بعد گرفت ہوتی ہے اور وہ مدت کونسی نص سے ثابت ہے اور اگر کوئی مفتری خدانخواستہ مقررہ میعاد سے زیادہ عمر پاجائے تو کیا اسے سچا تسلیم کرلیا جائے گا؟ امید ہے کہ مولوی صاحب خود یا ان کا کوئی حواری اس گتھی کو سلجھا کر اس کمی کو پورا کردیں گے۔
تاریخی کتابوں سے ظاہر ہے کہ بہت سے جھوٹے مدعی اپنے دعاویٰ بہت عرصہ تک پیش کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے رہے اور اپنے پیروئوں کی ایک خاصی تعداد چھوڑ کر مرے۔ چنانچہ:
۱… ابو منصور بانی فرقہ منصوریہ نے (۲۷) ستائیس برس تک نبوت کا دعویٰ کیا اور ہزاروں لاکھوں مرید بنائے۔ (عشرہ کاملہ، ص۱۸)
۲… ’’محمد بن تومرت نے ۲۴ چوبیس سال تک مہدویت کا دعویٰ کیا اور لاکھوں آدمی اس کے مرید ہوئے۔‘‘ (عشرہ کاملہ ص۱۹،۲۰)
۳… ’’عبدالمومن (۳۳) تینتیس سال مہدی کا خلیفہ اور امین المومنین کہلا کر اور بادشاہت کرکے مرا۔‘‘ (عشرہ کاملہ ص۲۱،۲۲)
۴… ’’صالح بن طریف نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ نیا قرآن اپنے اوپر نازل ہونے کا مدعی تھا۔ (۴۷) سینتالیس سال تک نہایت استقلال اور کامیابی سے اپنے مذہب کی اشاعت اور بادشاہت کرتا رہا۔‘‘ (عشرہ کاملہ، ص۲۲)
۵… ’’عبید اللہ مہدی افریقی نے ستائیس سال تک مہدویت کا دعویٰ کیا اور افریقہ کا فرمانروا رہا۔‘‘ (عشرہ کاملہ ص۲۳) علیہ القیاس۔ مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، سجاح بنت حارث، طلیحہ بنت خویلد، مختار ثقفی، صافی بن صیاد واحمد بن حسین کوفی، بہبود زنگی وغیرہ کئی جھوٹے مدعی کھڑے ہوئے اور اپنے اپنے مذہب کی اشاعت کرتے رہے۔ آخر کار آنحضرتﷺ کی اس پیش گوئی پر مہر تصدیق ثبت کرکے دنیا سے چل بسے۔ ’’سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلہم یزعم انہ نبی اﷲ وانا خاتم النّبیین لا نبی بعدی‘‘ یعنی عنقریب میری امت میں تیس جھوٹے (آدمی) ہوں گے جو سب کے سب گمان کریں گے کہ وہ نبی اﷲ ہیں حالانکہ میں خاتم النّبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (مشکوٰۃ کتاب الفتن، فصل ثانی)