اس شخص کے ڈرتا ہے آگے پروردگار کے کھڑاہونے سے دو بہشت ہیں۔ پس ساتھ کون سی نعمت پروردگار اپنے کے جھٹلاتے ہو۔ وہ نوبہشت شاخوں والے ہیں۔بیچ ان دونوں کے چشمے چلتے ہیں۔بیچ ان دونوں کے ہر میوہ سے دو قسمیں ہیں۔ تکیہ کئے ہوئے اوپر فرشتوں کے کہ استران کے تافتے کے ہیں۔اورمیوے دونوں بہشت کے نزدیک ہیں۔}ایضاً ثبوت وجود دوزخ ناظرین کو یاد رہے ۔پہلے لوگوں میں سے بھی ایسے تھے جو کہ سرسید مرحوم کی طرح دوزخ بہشت سے انکاری تھے۔ لہٰذا پروردگار نے ’’فبای الا ء ربکما تکذبن‘‘ بہشت کے منکروں کے لئے فرمایا اور دیکھیں دوزخ کے منکروں میں سے بڑا منکر اس زمانہ میں ولید بن مغیرہ تھا ۔ کافروں نے مشورہ کرکے کہا کہ یہ محمدؐ کہتا ہے کہ یہ قرآن خدا کی کلام ہے۔ تو سن اس کو پھر انصاف کر۔ کیا یہ خدا کی کلام ہے یا نہ پس جب حضرت نے سنایا تب ولید بن مغیرہ کہنے لگا۔یہ جادو ہے نقل کیا جاتا ہے نہیں، یہ قرآن مگر قول آدمی کا یعنی خدا کا کلام نہیں۔ دیکھو خدا تعالیٰ بھی مذکورہ بالا قول بیان فرماتا ہے:’’فقال ان ھذاالا سحر یوثر ان ھذالا قول البشر(المدثر:۲۵،۲۴)‘‘اس قول ولید بن مغیرہ کے جواب پر پروردگار نے یہ فرمایا ’’ساصلیہ سقر‘‘ پھر ولید بن مغیرہ نے سقر پر بھی استہزائکی۔لہٰذا پروردگار نے فرمایا:’’وماادراک ماسقر لایبقی ولاتذر لواحۃ للبشر۔علیھا تسعۃ عشر (المدثر:۲۷،۲۹)‘‘{پس کہا ولید ابن مغیرہ نے نہیں یہ قرآن مگرجادو قدیمہ نہیں۔یہ قرآن مگر قول آدمی کا، جواب باری تعالیٰ شتابی داخل کروں گا اس کو یعنے ولید بن مغیرہ کو دوزخ میں ’’پھر کہا اللہ تعالیٰ نے‘‘اورکہا جانے توکیا دوزخ ’’پھر اللہ تعالیٰ نے خود دوزخ کی تعریف بیان فرمائی نہیں باقی رکھتی اورنہیں چھوڑتی ۔ساڑدینے والی ہے چہرے کو۔ اوپر اس کے یعنی دوزخ کے انیس فرشتے ہیں۔پھر ولید ابن مغیرہ نے انیس فرشتہ پر بھی استہزاء کی کہ ہم تو بہت آدمی ہیں۔انیس فرشتے ہماری طاقت کے آگے کیا کر سکتے ہیں۔ الغرض دور تک یہی جھگڑا دوزخ کا چلا جاتا ہے۔ مگر ہماری گفتگو اس میں تھی کہ سرسید مرحوم نے جو یہ کہاکہ وجود دوزخ اوربہشت کا قرآن شریف سے ثابت نہیں۔یہ قول ان کا ہم نے قرآن شریف کے رو سے غلط ثابت کیا۔ یہ نہیں معلوم ہوسکتا کہ سر سید مرحوم نے منزل آخر کو نہیں دیکھا کیونکہ انہوں نے یہ تمام بحث پہلی ہی سپارہ میں ہی کی ہے۔ یاکہ دانستہ دیدہ انہوںنے انکار کیا ہے۔ بہر حال ہم ان کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ خدا ان کو بخشے کیونکہ اکثر تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ تفسیر سید مرحوم نے اپنے وہم میں مخالفین کی تردید کے لئے بنائی ہے۔