پس ثابت ہوا کہ وجود جنوں کا قرآن مجید سے ثابت ہے۔اگر کوئی معترض یہ اعتراض کرے کہ وجود فرشتوں اور جنوں کا ہمیں نظر کیوں نہیں آتا ۔تو ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ عالم دنیا میں ایسی بہت سی اشیاء ہیں جن کا وجود بھی محسوس بالنظر نہیں ہوتا۔مثلاًہوا جب تیز ہوتی ہے تو درخت توڑ دیتی ہے۔مکان گرا دیتی ہے۔مگر کوئی کہہ سکتا ہے کہ جسم ہوا کا اتنا لمبا ہے یا اتنا چوڑا یا سرخ یاسیاہ رنگ ہوتا ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ اگر کوئی معترض یہ کہے کہ ہوا کا فعل تو محسوس ہوتا ہے۔تو ہم اس کے جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ فرشتوں کا فعل یا وجود کا مس کرنا پیغمبروں کا ہی خاصہ ہے ۔وہ ان کے وجود کودیکھتے ہیں اوران کی آواز سنتے ہیں۔ لہٰذا منزلہ کتابوں میں فرشتوں اورجنوں کا جسم اور فعل بلکہ نام موجود ہے ۔جیسا کہ ہم قرآن شریف سے ثابت کر چکے ہیں۔اصل میں ایسے سوالات کرنے محض فضول ہیں۔انسانی عقل محدود ہے۔تعقل اس کا سلسلہ تمام قانون قدرت کو کیونکر سمجھ سکتا ہے۔ حالانکہ انسان کو اپنے بدن کی بھی پوری کیفیت معلوم نہیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ میرے اتنے لڑکے یالڑکیاں ہوں گی ۔کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ روح جو بول رہی ہے۔ اس کی کیا صورت یا کیا رنگ ہے ۔پس جب اپنے بدن کی کیفیت ہی معلوم نہ ہوئی تو فرشتوں اورجنوں کی کیفیت کیونکرحاصل کرسکتا ہے۔البتہ جن کو اللہ تعالیٰ ان کے سمجھنے کاعلم دے دے وہ بے شک سمجھ سکتے ہیں۔دور نہ جائیے انسان باوجود دعویٰ عقل بعض باتوں میں حیوان سے بھی بیوقوف ہے۔ دیکھو حیوان اپنے مادہ حاملہ کو سمجھ سکتا ہے۔پھر اس کے نزدیکی نہیں کرتا۔مگر انسان کو یہ سمجھ اللہ تعالیٰ نے نہیں دی۔ پس ثابت ہوا کہ فرشتوں اورجنوں کادیکھنا پیغمبروں کا خاصہ ہے ۔ چونکہ ابلیس بھی فرقہ جنوں میں سے ہے لہٰذا اس کے ثبوت کے لئے علیحدہ دلیل پیش کرنی بے فائدہ ہے۔
اعتقاد نمبر۶… سرسید مرحوم بہشت اوردوزخ سے بھی انکاری ہیں۔ وہ اپنی تفسیر میں بحث کرتے کرتے ہوئے اخیر میں یہ لکھتے ہیں ۔ ’’پس یہ مسئلہ کہ بہشت اوردوزخ دونوں بالفعل مخلوق وموجود ہیں۔ قرآن سے ثابت نہیں۔‘‘
یہ اعتقادسید مرحوم کا قرآن کی رو سے محض غلط ہے۔ کیونکہ قرآن میں دونوں کا وجود خدا تعالیٰ ثابت کرتا ہے۔دیکھو:’’ولمن خاف مقام ربہ جنتان ۔فبای الاء ربکما تکذبن۔ ذواتا افنان فیھما عینان تجرین فیھما من کل فاکھۃزوجان۔متکئین علی فرش بطائنہا من استبرق۔ وجنا الجنتین دان (الرحمن:۴۶تا۵۴)‘‘{اورواسطے