سے بھی زیادہ۔ حدیثوں میں جبرائیل کے چھ سو پر بیان ہوئے ہیں ۔پنجم! سید مرحوم کی طرح پہلے بھی لوگ فرشتوں کے انکاری تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جو’’ان اﷲ علی کل شی قدیر‘‘ فرمایا یہ ’’ جوامع الکم‘‘ اسی مقام پرآیاکرتا ہے ۔جہاں یہ گمان مخالف کر سکتا ہے کہ یہ کام کیوں اورکس طرح ہو سکتا ہے۔الغرض اختلافات قدیمہ سے فرشتوں کا اختلاف بھی تھا۔ بلکہ اہم امر نزول قرآن شریف کاساتھ مسئلہ اختلافی ثبوت کرنا تھا۔ مسئلہ اوّل لوگ توحید پر قائم نہ رہے تھے۔ جیسا کہ کافر بت پرست تھے۔ یہودی عزیر کو خدا کا بیٹاجانتے تھے اورنصاری بعض عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا اوربعض تثلیث کومانتے تھے۔
مسئلہ دوم… مختلف فیہ بعض فرشتوں سے سید مرحوم کی طرح انکار کرتے تھے۔اوربعض فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں جانتے تھے اورکہتے تھے کہ خدا جنوں کے ساتھ اپنی بیٹیوں کے ناطہ کرتا ہے ۔ معاذ اﷲ چنانچہ یہی اعتقاد سورت الصفات رکوع۴میں اسی باطل خیال پرخدا تعالیٰ آنحضرتﷺ کو فرماتا ہے۔دیکھو:’’فاستفتھم الربک البنات ولھم البنون ۔ام خلقنا الملئکۃ انا ثاوھم شاھد ون (الصافات: ۱۵۰،۱۴۹)الخ۔ایضاً وجعلو ابینہ وبین الجنۃ نسبا(الصافات:۱۵۸)‘‘
مسئلہ سوم… مختلف فیہ آسمانی کتابوں پر اکثر لوگ یقین نہیں رکھتے تھے۔ جیسا کہ یہود انجیل اور قرآن کے منکر ہیں۔
مسئلہ چہارم… مختلف فیہ پیغمبروں کی رسالت سے بھی اکثر انکار کرتے تھے۔جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام ومحمدﷺ سے یہودی ونصارٰٰ اورمشرک انکاری ہیں۔
مسئلہ پنجم… مختلف فیہ بعض لوگ دہریہ زمانہ قدیم میں بھی موجود تھے جو کہ تدبیر کے قائل اور تقدیر کے منکر ہیں۔ چنانچہ آج کل یہی اسی اعتقاد کے دہریہ کم وبیش موجود ہیں۔ فرعون کا بھی یہی اعتقاد تھا:’’فما بال القرون الا ولیٰ (طہٰ:۵۱) قال فمن ربکما یاموسیٰ (طہٰ:۴۹)‘‘
مسئلہ ششم… مختلف فیہ قیامت تھا بعض یہود اعتقاد رکھتے تھے کہ عذاب قیامت چند روز ہوگا۔ دیکھو اللہ تعالیٰ ان کا قول بیان فرماتاہے:’’وقالو الن تمسنا النار الاایامامعدودۃ (البقرہ:۸۰)‘‘ اور بعض یہود اعتقاد رکھتے تھے کہ قیامت نہ ہوگی:’’یایھا الذین امنوا لاتتولواقوماغضب اﷲ علیھم قدیئسوا من الاخرۃ کما یئس الکفارمن اصحاب القبور (سورہ ممتحنہ:۱۳)‘‘