تانبے کا اورتابع کیا جنوں میں سے واسطے سلیمان کے اورجو کوئی بے فرمانی کرے ان میں سے یعنے جنوں سے سلیمان کے حکم ہمارے سے چکھاویں گے ہم اس کو یعنے بے فرمان کو عذاب دوزخ سے اورسلیمان نے فرمان جنوں کو خود ہی عذاب فرمادیاکرتاتھا۔}
الغرض وجود معجزات کا قرآن شریف سے ثابت ہے ۔جو لوگ ان کے منکر ہیں۔ حقیقت میں ان کو علم قرآن ہرگز نہیں۔ اعتقاد نمبر۴میں سرسید مرحوم کے نزدیک فرشتوں کا کوئی وجود نہیں۔ انہوں نے اپنی تفسیر میں بحث فرشتوں میں آخر یہ اعتقاد اپنا ظاہر کیا ہے ان سب باتوں سے یعنی مذکورہ بالا بحث سے صاف پایا جاتا ہے کہ فرشتوں کے نام یہودیوں کے مقرر کئے ہوئے ہیں جو مختلف قواے کی تعبیر کرنے کو انہوں نے رکھ لئے تھے۔ مگر یہ اعتقاد قرآن کے رو سے ہرگز صحیح نہیں۔ خاکسار نہیں بلکہ قرآن شریف سے ثابت ہے ۔بلکہ فرشتوں کے انکار سے مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ دیکھو:’’لیس البران تولو ادجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البرمن امن باﷲ والیوم الاخر والملئکۃ والکتاب والنبین (البقرہ :۱۷۷)‘‘
آیت ہذا سے چار امر ثابت ہوتے ہیں۔ امر اول نماز۔ صرف نماز نجات کے لئے کافی نہیں تاوقتیکہ مفصلہ ذیل اشیاء پر ایمان نہ لاویں وہ یہ ہیں۔ اول خدا کو وحدہ لاشریک سمجھیں۔ دوم قیامت ۔سوم فرشتے۔ چہارم نبی۔پنجم آسمانی کتابیں۔امر دوم آیت مذکورہ سے خدا تعالیٰ نے فرشتوں کا وجود ثابت کیا ہے۔ معاذ اﷲ اگر فرشتوں کاوجود نہ ہوتا جیسا کہ سرسید مرحوم صاحب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں تواللہ تعالیٰ یہ حکم نہ فرماتا جو کہ ایمان لانا آخر فرشتوں پر آیت مذکورہ میں گزرا ہے۔امر سوم آیت مذکورہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پہلے لوگوں میں سے بھی بعض ایسے تھے جو کہ فرشتوں سے انکار کرتے تھے۔لہٰذا پروردگار نے آیت مذکورہ میں ایمان لانا فرشتوں پر فرمایا۔ امر چہارم۔ مقدس کتابیں تو ریت وانجیل جو کہ زمانہ حال میں بھی موجود ہیں ان میں بھی فرشتوں کا وجود ثابت ہے۔خلاصہ بحث ہذا کا یہ ہوا کہ وجود فرشتوں کا کلام الٰہی سے ثابت ہے ۔بلکہ قرآن شریف میں فرشتوں کا صاحب پروں کا ثابت ہے۔ دیکھو:’’الحمدﷲ فاطر السموت والارض جاعل الملئکۃ رسلااولی اجنحۃ مثنی وثلث وربع ۔یزید فی الخلق مایشاء ان اﷲ علی کل شی قدیر (فاطر :۱)‘‘
مذکورہ آیت سے ایضاًپانچ امر ثابت ہوتے ہیں اوّل! فرشتوں کا وجود۔ دوم! پیغام کے لئے فرشتوں کا ایلچی ہونا۔ سوم! اورفرشتوں کا صاحب پر ہونا۔تین تین چار چار۔ چہارم! اس