مشہورہ کی وجہ سے معجزہ طلب کرتے تھے۔ چنانچہ پروردگار ان کا قول بیان فرماتا ہے:’’قالوا لو اوتی مثل ما اوتی موسی(القصص:۴۸){کہا انہوں نے یعنی مخالفوں کیوں نہیں دیاگیا یہ پیغمبر یعنے رسول اﷲﷺمثل اس کے جو دیاگیا موسیٰ یعنے معجزہ}اب قابل غور یہ بات ہے کہ انہوں نے معجزہ رسول اﷲﷺ سے طلب کیا۔اگر معجزہ پیغمبر وں کا قدیمی فعل نہ ہوتا تو وہ آنحضرت ﷺکیوں طلب کرتے۔ نہیں ضرور رواج قدیم تھا۔ دیکھو ماقبل کی آیت کا جواب:’’اولم یکفروابمااونی موسیٰ من قبل(ایضاً)‘‘{کیا نہ کفر کرتے تھے ساتھ اس چیز کے کہ دیاگیا تھا موسیٰ علیہ السلام یعنے معجزہ پہلے اس سے }مابعداس کے پروردگارپہلی آیت کی تفسیر کرتا ہے۔ان کا قول بیان کرکے :’’قالو اسحران تظارھر(ایضاً)‘‘ {کہتے تھے یہ دونوں جادو ہیں ایک دوسرے کا مددگار }یعنی عصاء موسیٰ ویدموسیٰ اس کے بعد پروردگار ان کا قول بیان فرماتا ہے جو انہوں نے موسیٰ کے دو معجزے دیکھ کر کہا تھا:’’وقالوا انا بکل کفرون (ایضاً)‘‘{اورکہتے تھے ہم ساتھ ایک کے یعنی معجزہ موسیٰ کے کافر ہیں یعنی انکار کرنے والے۔}
ناظرین! یہاں تک آیات مذکورہ بالا میں بیان ہے جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ دیکھ کر انکار کردیاتھا ۔اگر معجزہ کا وجود قدیم سے نہ ہوتا تو نہ وہ رسول اللہﷺسے معجزہ طلب کرتے اور نہ یہ واقعہ موسی علیہ السلام کاجو کہ تمثیلاًبیان ہوا ہے،پروردگار بیان فرماتا ۔ اب یہ امر بحث طلب ہے کہ پہلی آیت میں مخالفوں کا آنحضرتﷺ پر معجزہ دکھلانے کاسوال تھا اورمعجزہ قدیم سے پیغمبروں کا شیوہ تھا۔ آنحضرتﷺ نے ان کے سوال کو پورا کیا ۔بلاشبہ آنحضرت نے بموجب حکم باری تعالیٰ ان کے سوال کو یعنے معجزہ کا دکھلانا دکھلایا۔ وہ معجزہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ بلاشبہ امی یعنے ان پڑھ تھے۔اس زمانہ میں شاعر وں کا زور تھا ۔چونکہ ہر زمانہ میں جو پیغمبر ہوتا رہا۔ موافق رواج قوم یایوں کہو کہ جو اس زمانہ میں لوگ کسی ایک امر کے مدعی ہوتے تھے اوراپنے دعوے میں خدا کے ساتھ شرک کرتے تھے۔ان کی تردید کے لئے پیغمبر کو پروردگار ان سے بڑھ کر فضیلت بخشتا ہے۔ مثلاًموسیٰ علیہ السلام کے وقت ساحر وں کا زور تھا۔ پروردگار نے موسیٰ علیہ السلام کو دو معجزے عطاء کئے۔ یعنے عصاء ویدبیضا ۔جن سے انہوں نے ساحروں کو مغلوب کیا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پروردگار نے یہ خواص بخشا کہ سخت بیماروں کو اچھا کرتے تھے۔بے علاج ادویہ۔بلکہ مردوں کو زندہ کرتے تھے۔علی ہذا زمانہ آنحضرتﷺ میں شاعروں کا زور تھا۔