کرتے ہوئے مجھ کو۔} پھر فرعون کے سرداروں کا خدا تعالیٰ جواب بیان کرتا ہے جو کہ انہوں فرعون کے مشورہ پر دیا تھا:’’قالو ارجہ واخاہ وارسل فی المدائن حاشرین۔یاتوک بکل ساحر علیم (الاعراف:۱۱۱،۱۱۲)‘‘
{کہا فرعون کے سرداروں نے اس کو اوراس کے بھائی کو مہلت دے اوربیچ بیچ شہروں کے اکٹھا کرنے والے یعنے چوکیدارآویں تیرے پاس ہر جادوگر دانا کو ،آخر جادوگر بلا لئے گئے} انہوں نے موسی علیہ السلام کی طرح لاٹھی اوررسیوں کے سانپ بنائے مگر موسیٰ علیہ السلام کا عصا اژدھا بن کر ان کو کھا گیا ۔ تب ساحروں نے کہاکہ ہم ایمان لائے۔ ساتھ رب العالمین کے جو رب موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کا ہے۔ بلاشبہ یہ معجزہ مذکورہ بالا میں جو لفظ آیت آیا ہے ۔اس کے معنے اس مقام پر حکم نہیںہوسکتا۔صرف نشان بھی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اعلانیہ طرز مباحثہ سے معجزہ ہی ثابت ہوتا ہے۔
ایضاً:’’وماتلک بیمینک یاموسیٰ۔ قال ھی عصای اتوکؤا علیہا و اھش بھا علی غنمی ولی فیہا ماٰرب اخریٰ ۔قال القہا یاموسی فاذا ھی حیۃ تسعٰے۔ قال خذھا ولا تخف۔سنعید ھا سیر تھا الاولی ۔واضمم یدک الی جناحک تخرج بیضاء من غیر سوء ایۃ اخریٰ (طہٰ:۱۹تا۲۲)‘‘
ارباب بصیرت پر مخفی نہ رہے کہ آیات مذکورہ بالا سورۃ مریم پہلی آیت جو کہ سورۃ اعراف کی جس میں معجزہ لفظ آیت کا معنے نکالا تھا۔اس کی مصدقہ ہیں کہ لفظ آیت بمعنے معجزہ ہے اور آیات ہذا سے آٹھ امر ثابت ہوتے ہیں۔ اوّل! عصا موسیٰ علیہ السلام کا لکڑی ثابت ہونا۔ دوم! اس کا اژدھا بننا۔ سوم! پھر اصلی حالت پر عود کرنا۔چہارم! اس سے موسیٰ علیہ السلام کاڈرنا۔ پنجم! پروردگار کا موسیٰ علیہ السلام کو تسلی دینا۔ ششم! دست مبارک موسیٰ علیہ السلام کا سفیدتعجب خیز ہونا۔ ہفتم! دومعجزہ کا موسیٰ علیہ السلام کودیاجانا۔ ہشتم! لفظ آیات کا معجزہ پر اطلاق ہونا خدا کی طرف سے ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ لفظ آیت اس مقام پرمعجزہ پر خدا کی طرف سے اطلاق نہیں ہوتا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ لفظ آیت سے حکم یا نشان کامعنے نکلتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ سید مرحوم کو دھوکہ ہوا جو انہوں نے لفظ آیت کا معنی صرف حکم پر ہی عمل کیا ہے نہیں، معجزات پیغمبروں کے قرآن شریف سے ثابت ہیں۔ چنانچہ یہی ثبوت مذکورہ جو کہ خدا نے موسیٰ علیہ السلام کو سکھایا ہے مگر علماء اس کے ہم وجود معجزہ کا قرآن شریف سے کرتے ہیں۔انشاء اللہ!