اﷲ وانتم تشھدون(آل عمران:۷۰)‘‘{اے اہل کتاب کیوں کفر کرتے ہو ساتھ حکماں اللہ کے اور حالانکہ تم گواہ ہو۔} یہ آیت جس کا ہم نے ترجمہ کیا ہے سورت آل عمران رکوع۷ کی ہے۔اس ما قبل عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت اورابراہیم علیہ السلام کی نسبت جھگڑا ہوچکا تھا اوریہودی اورنصاریٰ کہتے تھے کہ ہم ابراہیمی مذہب ہیں حالانکہ یہودی عزیر کوخدا کا بیٹا اورنصاریٰ عیسیٰ کو خدا کا بیٹا اوربعض خدا بعض تثلیث کو مانتے تھے۔ لہٰذا پروردگار نے اہل کتاب کو مخاطب کر کے فرمایا ’’اھل الکتاب لم تکفرون بایات اﷲ وانتم تشھدون‘‘ یعنی دونوں فریق اہل کتاب یہودی اورنصاریٰ توریت اورانجیل میںپڑھتے ہیں کہ اللہ ایک ہے۔ پھر خدا کے ساتھ شریک لاتے ہیں اورقرآن شریف کو منزل من اللہ اورمحمدﷺ کو رسول نہیں سمجھتے۔ پس ناظرین اس میں سوائے حکم کے دوسرا نہیں بن سکتا۔ دیکھو۔ایضاًسورت بلد:’’ثم کان من الذین امنو وتواصوا بالصبر وتواصوا بالمرحمہ واولئک اصحاب المیمنۃ والذین کفروا بایتنا ھم اصحاب المشئمۃ(البلد:۱۷،۱۸،۱۹)‘‘آیت ہذا سے بھی صاف ثابت ہے کہ لفظ آیت بمعنے حکم ہے ۔ کیونکہ ایمان لانا اورایک دوسرے کو نصیحت کرنا اورایک دوسرے پر رحم کرنا جو کہ پہلی آیت میں گزرا ہے بلاشبہ یہ احکام ہیں۔پھر مابعد کی آیت میں جو کہ ’’والذین کفروا بایتنا ھم اصحاب المشئمہ ‘‘آیت ہذا میں جو لفظ آیت کا ہے ذرا بھی شبہ نہیں ہو سکتا کہ لفظ آیت معنے حکم نہ ہو۔
ایضاً ’’ھوالذی بعث فی الامّیّن رسولا منھم یتلوا علیھم ایاتہ (الجمعہ:۲)‘‘آیت ہذا میں جو لفظ آیت کا معنے حکم ہیں کیونکہ ’’یتلوا علیھم ‘‘سے صاف ظاہر ہے کہ لفظ آیت کا معنے حکم ہے نہ نشان اورنہ معجزہ ۔
دوم… لفظ آیت بمعنے نشان دیکھو:’’وتصریف الریاح ولسحاب المسخربین السماء الارض لایٰت لقوم یعقلون(البقرہ: ۱۶۴)‘‘آیت ہذا میں پروردگار نے اپنے دلائل الوہیت کے وہ بیان کئے ہیں جو کہ طاقت البشریت سے باہر ہیں ۔یعنی ہوا کا چلانا اوربادلوں کا زمین اورآسمان کے درمیان بغیر واسطہ کے ہائل کرنا بلاشبہ عقلمندوں کے واسطے الوہیت کے نشان ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ آیت مذکورہ میں لفظ آیت بمعنے نشان نہیں۔ ـ:’’ایضاً دیکھو ان اوّل بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبادکا وھدی للعالمین۔فیہ ایت بینات مقام ابراہیم(آل عمران:۹۷،۹۶)‘‘