بعض الشی خدا کے کلام سے تو یہ مفہوم ہے کہ نہ سولی دیئے گئے اور نہ قتل کئے گئے۔ معاذاﷲ اگر عیسیٰ علیہ السلام سولی دیئے جاتے بزعم سید مرحوم صاحب تو کیاخدا تعالیٰ یہ عبارت نہ بناسکتے تھے کہ عیسیٰ سولی دیا گیا لیکن سولی پرفوت نہیں ہوااوراپنی طبعی موت سے مرگیا اورفلاں جگہ اس کی قبر ہے۔ حالانکہ یہ اعتقاد کسی یہود اور نصاریٰ کا بھی نہیں اورنہ کسی انجیل میں لکھا ہے اورنہ قرآن شریف میں عیسیٰ کی قبر کا کہیں پتا لگایا ۔ لہٰذا یہ اعتقاد سید مرحوم کا گویا بہاردانش ہے۔
معجزات… عیسی ابن مریم علیہ السلام بلکہ تمام پیغمبروں کے صحیح نہیں۔ سید مرحوم نے اپنی تفسیر میں زیادہ تر آیت مفصلہ ذیل پربحث کی ہے ۔آیت ’’آتینا عیسی ابن مریم البینات‘‘ آیت ہذا پر بحث کرتے کرتے آخر سید مرحوم نے یہ نتیجہ نکالا کہ لفظ آیات یابینات دونوں کے ایک ہی معنے ہیں۔کیونکہ آیات موصوف ہے اوربینات صفت پر جہاں لفظ صف بینات کا ہے وہاں موصوف اس کامقدر ہے۔ لفظ آیت کا معنے لغوی نشان آپ نے ثابت کیا ہے۔ ان دونوں امر مذکورہ بالا میں ہم کو بھی کوئی انکار نہیں مگر انکار اس بات میں ہے کہ سید مرحوم نے آیت یابینات کا معنے صرف احکام ہی لئے ہیں۔ حالانکہ لفظ آیت کا معنے قرآن مجید میں تین ثابت ہوتے ہیں۔ اول حکم، دوم نشان، سوم معجزہ ۔لیکن سید مرحوم نے چونکہ کل معجزات کی نفی کی ہے لہٰذا انہوں نے دو معنے لفظ آیت کے طرف توجہ ہی نہیں فرمائی ہے۔ نہ تو لغوی معنے لفظ آیت کا لیا اورنہ لفظ آیت کا معنے معجزہ ثابت کیا۔پس ہم پہلے بیان کرنے اپنے ثبوت کے سرسید مرحوم کی عبارت کو ناظرین کے لئے لکھتے ہیں۔
عبارت سرسید صاحب۔ پس جہاں قرآن شریف میں اس لفظ کے معنے آیت یا آیات یا بینات یا آیات بینات کا استعمال خدا کی جانب سے ہوا ہے ۔اس سے ہمیشہ وہ احکام یا نصائح اورمواضح مراد ہیں جو خدا تعالیٰ نے بذریعہ اپنے کلام یاوحی کے اپنے انبیاء پر نازل فرمائی ہیں۔ آخر سید مرحوم لکھتے ہیں کہ ہم آیات بینات سے جہاں کہ وہ خدا کی طرف سے بولا گیا ہے وہ چیز مراد نہیں لیتے جس کو لوگ معجزہ یا معجزات کہتے ہیں۔
ہم اس بحث کو دو قسم پر بیان کرتے ہیں۔
قسم اوّل… تحقیق معنے لفظ آیت، قسم دوم ثبوت وجودمعجزات۔
قسم اوّل… ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ لفظ آیت کامعنے قرآن شریف سے تین ثابت ہوتے ہیں کہ اول حکم، دوم نشان، سوم معجزہ۔ لفظ آیت حکم دیکھو :’’یاھل الکتاب لم تکفرون بایات