پیدائش بن باپ سے اس کی پیدائش کم نہیں کیونکہ یحییٰ کے والداوروالدہ دونوں ناقابل اولاد تھے۔حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ تو قابل تولید تھی پھر اس میں ہماری اعلانیہ غلطی ہے کہ یحییٰ کی پیدائش کو ہم قدرت سے مانیں اورعیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ ہونے میں کیا مشکل ہے۔
دلیل ہشتم… سرسید صاحب مرحوم نے جو بحث عیسیٰ علیہ السلام پر یوسف کے بیٹا ہونے پر کی ہے محض فضول اورلغو ہے کیونکہ مریم علیہ السلام آزاد شدہ تھیں ۔جس کو ہمارے ملک میں آج کل تارک بولاجاتا ہے ۔ جو زمانہ حال میں بعض خاندانوں ہندواورمسلمانوں میں لڑکیوں کا تارک بٹھانا رواج موجود ہے ۔گویا یہ رواج اس کے قریب قریب ہے اور یہودیوں میں اس سے بھی بڑھ کر تھا۔ پس جب مریم علیہا السلام کو والدین نے آزاد کر دیا تو پھر وہ والدین مریم علیہا السلام یوسف کے ساتھ کیونکر خطبہ کر سکتے تھے حالانکہ یہودیوں میں رواج تھا کہ جو آزاد کیا جاتا تھا ۔ پھر وہ تمام عمر بیت المقدس میں ہی اپنی عمر عبادت میں بسر کرتا تھا۔ نایہ کہ وہ شادی کر کے صاحب اولاد ہو۔اسی واسطے تو مریم علیہا السلام کو بہتان لگائے گئے تھے کہ باوجود آزاد ہونے کے اس نے بیٹا جنا۔ برخلاف ان کے جو معتقد مریم علیہا السلام ہوئے ۔انہوں نے یہ غضب کیا کہ بعض عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنا بیٹھے کیونکہ ان کا کوئی باپ نہ تھااوربعض عیسیٰ علیہ السلام کو خدا بنابیٹھے کیونکہ جب خدا کا بیٹا ہوا معاذ اﷲ تو خدا کے ملک کاوارث ہوا۔ پس اس اعتبار سے وہ خدا کہنے لگے اور بعض نصاریٰ تین خدا بنابیٹھے کیونکہ جب خدا معاذ اللہ مریم علیہا السلام کا خاوند ہوا اور عیسیٰ علیہ السلام بیٹا ہوا تو ہر ایک خدائی کاحصہ دار ہوا۔ نعوذ باﷲ منہا!انہیں مذکورہ بالا اعتقاد کے لئے پروردگار نے تمام واقعہ مریم علیہا السلام بیان کیا تھا۔
نمبر۲… عیسیٰ علیہ السلام آسمان پرنہیں چڑھائے گئے بلکہ سولی پرچڑھائے گئے ۔لیکن اپنی طبعی موت سے مرے ۔ یہ اعتقاد سید مرحوم کا بالکل غلط ہے۔ ناظرین اس بحث کی غرض پنجم مکر یہودمیں ملاحظہ فرمائیں ہم نے اعتقاد مذکورہ کی اپنے مقام پرپوری تردید کر دی ہے۔ اس مقام پر اتنا ہم ناظرین کے ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام سولی دیئے جاتے تو پھر طبعی موت سے مرتے تو پروردگار :’’وماصلبوہ وماقتلوہ ‘‘نہ فرماتا۔سید مرحوم نے ’’وما صلبوہ ‘‘پر یہ تاویل فرمائی ہے کہ بعض یہود اعتقاد رکھتے تھے کہ پہلے عیسیٰ علیہ السلام سنگسار کرکے پھر سولی دیئے گئے پھر قتل کئیء گئے ۔ لہٰذا ان دونوں اعتقادوں کی تردید کے لئے خدا تعالیٰ نے ’’وما صلبوہ ماقتلوہ ‘‘فرمایا۔ لیکن تعجب ہے سید مرحوم کی تاویل پر کہ نفی از شے منکل الوجوہ ہوتی ہے نہ نفی