سرسید احمد خان نے عیسیٰ علیہ السلام کو یوسف کا بیٹا بنانے کے واسطے تاویلیں کیں مگر آیت :’’لم یمسسنی بشر ولم اک بغیا‘‘ کے بیان کرنے پر کافیہ تحویلات آپ کا تنگ ہوگیا۔ اس آیت پر آپ یہ لکھتے ہیں۔
سب سے زیادہ غور لائق لفظ’’ لم یمسسنی وبشر ولم اک بغیا‘‘ ہے ۔بلاشبہ یہ دونوں کلمات نہایت صحیح ہیں اورجس زمانہ میں بشارت ہوئی اس زمانہ میں بلاشبہ حضرت مریم علیہ السلام کو کسی مرد نے نہیں چھواتھا۔ بلکہ غالباً خطبہ بھی یوسف کے ساتھ نہ ہوا تھا۔ مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے بعد بھی امر واقعہ نہیں ہوا۔ ناظرین کو واضح رہے کہ سر سید احمد خان مرحوم کے مذکورہ بالا عبارت پر بحث کرتے ہیں۔سید مرحوم کا یہ اعتقاد کہ جب یہ آیت ’’لم یمسسنی ‘‘الخ آئی ہے تو اس کے بعد خطبہ ہوا۔ یہ بات مریم کایوسف سے خطبہ ہوا آٹھ دلیلوں سے بالکل غلط ہے۔
دلیل اوّل… ابتداء نزول قران شریف میں یوسف کے خطبہ کا یہودیوں میں اختلاف موجود تھا۔ قرآن شریف نے اس اعتقاد کی تردید فرمائی ہے۔ اس واسطے قرآن شریف کا نام فرقان ہے بلکہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اکثر یہودیوں کے اختلاف کو قرآن شریف بیان فرماتا ہے:’’ان ھذا القرآن ان یقص علی بنی اسرائیل اکثر الذی ھم فیہ یختلفون ‘‘ چونکہ مریم ویوسف کے خطبہ کا اختلاف نزول قرآن شریف سے پہلے ہی تھا اورقرآن شریف میں بیان ان کی تردید کے لئے نازل ہوا ہے لہٰذا سرسید احمد مرحوم کا قول مذکورہ بالاغلط ثابت ہوا۔
دلیل دوم… کسی عورت کو جس طرح کہ مریم کو بیٹا پیدا ہونے کی بشارت دی گئی ہے ۔پہلے نہیں دی گئی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ بن باپ ہی بیٹا پیدا ہواتھا۔
دلیل سوم… پروردگار فرماتا ہے کہ میرے پر بن باپ بیٹاپیدا کرنا آسان ہے۔
دلیل چہارم… عیسیٰ علیہ السلام کابن باپ پیدا ہونا خدا کی قادریت کا نشان ہے۔
دلیل پنجم… خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بن باپ پیدا ہونا میر ی طرف سے مریم علیہا السلام پر مہربانی ہے جیسا کہ ’’ورحمۃ منا ‘‘سے ظاہر ہے۔
دلیل ششم… پروردگار خودفرماتا ہے کہ ازل میں یوں ہی ہوتا تھا جیسا کہ ’’وکان امرا مقضیا‘‘ سے ظاہر ہے۔
دلیل ہفتم… مریم علیہ السلام کے ذکر کے قبل یحییٰ کے تولد کا ذکر ہے جو کہ عیسیٰ علیہ السلام کی