وسید عالمﷺ افتراء نہ کردہ است برما۔ اگر افتراء کردے ما اورا بعذاب ہلاک کردی وہیچ کس اورا از عذاب ما نجات ندادے وروز برروزگار ے زیادہ نشدلے۔ ودشمنان او ہلاک نہ شدندے۔ یک کس پیدا شد ہمہ عالم برکفر بود۔ نور دین مشرق وغرب عالم رابگرفت‘‘
{جان کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے قسم یاد فرمائی کہ قرآن میرا کلام ہے۔ کاہن اور شاعر کا کلام نہیں ہے۔ پھر اپنی قدرت کی دلیل بیان کی کہ قرآن شریف جھوٹ نہیں ہے اور سید عالمﷺ نے ہم پر افتراء نہیں کیا ہے۔ اگر (بالفرض محال…ناشر) وہ افتراء کرتا تو ہم اس کو عذاب سے ہلاک کرتے اور کوئی آدمی اس کو ہمارے عذاب سے نجات نہ دلا سکتا اور اس کا کام روز بروز ترقی پر نہ ہوتا اور اس کے دشمن ہلاک نہ ہوتے۔ آپ ایسے وقت میں پیدا ہوئے جبکہ سارا جہاں کفر سے بھرا ہوا تھا۔ آپ کے دین کے نور نے مشرق سے مغرب تک ساری دنیا کو روشن کیا۔} پس ثابت ہوا کہ یہ آیات آپ کے لئے مخصوص ہیں۔
رہا یہ امر کہ مخالفین کی اس جواب سے تسلی ہوئی یا نہ۔ سو اس کا قرآن شرف میں تو کوئی ذکر نہیں۔ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ جن سعید روحوں کے حصہ میں ایمان کی نعمت مقدر تھی۔ وہ اس سے بہرہ یاب ہوگئے اور جو بدبخت ازلی تھے۔ انہوں نے نہ مانا۔ مولوی محمد علی صاحب نے اپنی تفسیر میں ان آیات کے نیچے لکھا ہے کہ ’’ان چار آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنا قانون بیان فرمایا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر افتراء کرے اور کہے کہ اسے یہ وحی ہوئی ہے حالانکہ اسے وحی نہیں ہوئی تو ایسے شخص کو وہ زیادہ مہلت نہیں دیتا بلکہ جلد اس کا کام تمام کردیتا ہے اور اس قانون کو آنحضرتﷺ کی صداقت پر یہاں بطور دلیل پیش کیا ہے۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ نے صادق کے لیء پرکھ رکھی ہے۔ اگر وہ مفتری پر گرفت نہ کرتا تو نبوت کے معاملہ میں امن اٹھ جاتا۔‘‘
(تفسیر بیان القرآن جلد سوم، ص۱۸۸۴)
مولوی محمد علی صاحب کی یہ تحقیق تو قابل داد ہے کہ انہوں نے باوجود ختم نبوت کے قائل ہونے کے ایک ایسا نکتہ معلوم کیا ہے جو تیرہ سو سال سے تمام مفسرین کرام کی نظروں سے اوجھل رہا مگر اس تحریر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ خدا کا یہ قانون ازلی ہے یا بعد میں وضع ہوا؟ اگر ازلی ہے تو پہلے انبیاء کی نسبت کیوں جاری نہیں کیا گیا اور ان میں سے بعض کو کیوں قتل ہونے سے نہیں بچایا گیا۔ آپ کے مرزا خدا بخش صاحب نے اپنی کتاب’’غسل مصفٰی ج۱ ص۳۴۹ میں تسلیم کیا ہے کہ