احادیث سے ثابت ہیں جیسے کسر صلیب، قتل دجال وغیرہ جس کے لئے آپ کا تشریف لانا ضروری ہے۔
سوال چہارم… آیتہ شریفہ ’’ولو تقول علینا بعض الاقاویل لا خذنا منہ بالیمین۔ ثم لقطعنا منہ الوتین (حاقۃ:۴۴)‘‘ جو بطور دلیل آنحضرتﷺ کو شاعر اور کاہن کہنے والوں کے سامنے پیش کی گئی ہے یہ بطور قاعدہ کلیہ کے ہے یا نہیں؟ اگر نہیں، تو پھر یہ دلیل مخالفین کے لئے کس طرح وجہ تسکین ہوسکتی ہے؟
جواب… مرزائیوں کے سوا کوئی مفسر اس بات کا قائل نہیں ہے کہ یہ آیات بطور قاعدہ کلیہ کے ہیں اور قائل بھی کس طرح ہوتے جبکہ قرآن شریف میں صاف طور پر بیان ہوچکا ہے کہ اب دین مکمل ہوچکا اور آنحضرتﷺ خاتم النّبیین ہیں اور آپ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی جو کھلی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا ہوگا، تو پھر ان آیات کو ’’قاعدہ کلیہ‘‘ ٹھہرانے کی کیا ضرورت ہے؟
خیال ایں وآں حاشانہ گنجد دردل مجنوں
بہ لیلیٰ ہر کہ کردوآشنا محمل نمے داند
بلکہ ان آیات سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ آنحضرتﷺ کے ساتھ ہی مخصوص ہیں اور آپ کی صداقت کے اظہار کے لئے نازل ہوئی ہیں کیونکہ ’’تقول‘‘ میں جو ضمیر ہے وہ اس آیت کو آپﷺ کے ساتھ ہی مخصوص کرتی ہے۔ اور لو جو محال کے لئے آتا ہے۔ جیسے لو کان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا (انبیائ:۲۲) آ پ کی صداقت کا اظہار کررہا ہے۔ یعنی جس طرح یہ امر محال ہے کہ خدائے قدوس کے سوا زمین وآسمان میں کوئی اور بھی خدا ہو اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ خدا کا محبوب (نعوذ باﷲ) جھوٹ بولے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ’’ولوتقول علینا بعض الاقاویل۔ لا خذنامنہ بالیمین۔ ثم لقطعنا منہ الوتین۔ فما منکم من احد عنہ حاجزین (حاقۃ:۴۴)‘‘ {اور اگر وہ ہم پر بعض باتیں افتراء کے طور پر بنا لیتا تو ہم ضرور اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے پھر اس کی رگ جان کاٹ دیتے پھر تم میں سے کوئی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔}
’’تفسیر یعقوب چرخی‘‘ میں اس آیت کے نیچے لکھا ہے: ’’بداں کہ حضرت ذوالجلال اول سوگند یاد کرد کہ قرآن کلام من است وسخن کاہن وشاعر نیست۔ باز دلیل قدرت خود را بیان کرد کہ سخن دروغ نیست