جواب… یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا کئی وجہ سے ہے۔ چنانچہ پہلی وجہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی ’’اے رب بخشش والے! اور رحمت میں غنی، تو اپنے خادم کو قیامت کے دن اپنے رسول کی امت میں ہونا نصیب فرما۔‘‘
(انجیل برنباس فصل ۲۱۲ آیت۱۵،۱۶ ص۲۹۴)
خدا تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا منظور فرمائی اور نہ صرف امت میں شامل ہونا مقررفرمایا بلکہ آپ کو طویل عمر عطا فرما کر نشان قیامت مقرر فرمایا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خود اپنا بیان ہے کہ: ’’اللہ نے مجھے ہبہ فرمایا ہے کہ میں دنیا کے خاتمہ کے کچھ پہلے تک زندہ رہوں۔‘‘
(برنباس، فصل ۲۲۱ آیت ۱۶ ص۳۰۷)
دوسری جگہ ہے: ’’میں ہرگز مرا نہیں ہوں، اس لئے کہ اللہ نے مجھ کو دنیا کے خاتمہ کے قریب تک محفوظ رکھا ہے۔‘‘ (برنباس، فصل ۲۲۰، آیت ۱،۲ ص۳۰۵)
دوسری وجہ : یہ ہے کہ خداوند کریم نے انبیاء علیہم السلام سے عہد لیا تھا کہ وہ اور ان کی امتیں آنحضرتﷺ پر ایمان لائیں،۔ اگر آپ ان کے زمانہ میں تشریف نہ لائیں تو آپ کی صفات بیان کرکے اپنی امتوں کو آپ کی تابعداری اور مددگاری کا حکم دیں۔پس تمام نبی اپنے اپنے زمانے میں یہ عہد پورا کرتے رہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ عہد پورا کرتے ہوئے جب اپنے حواریوں کو آپ کی تشریف آوری کی بشارت دی تو خواہش ظاہر کی کہ اگر میں آپ کا زمانہ پائوں تو آپ کی تابعداری اور مددگاری کا شرف حاصل کروں۔ چنانچہ ’’انجیل برنباس‘‘ میں ہے۔ ’’وہ کیا مبارک زمانہ ہے جس میں کہ یہ (رسول) دنیا میں آئے گا تو مجھے سچا مانو۔ ہر آئینہ میں میں نے اس کو دیکھا اور اس کے ساتھ عزت وحرمت کو پیش کیا (اسکی تعظیم کی) ہے جیسا کہ اس کو ہر نبی نے دیکھا ہے کیونکہ ان (نبیوں) کو اس (رسول) کی روح بطور پیش گوئی کے عطا کرتا ہے اور جب کہ میں نے اس کو دیکھا میں تسلی سے بھر کر کہنے لگا۔ اے محمدﷺ اﷲ تیرے ساتھ ہو اور مجھ کو اس قابل بنائے کہ میں تیری جوتی کا تسمہ کھولوں، کیونکہ اگر میں یہ شرف حاصل کرلوں تو بڑا نبی اور اللہ کا قدوس ہوجائوں گا۔‘‘ (بلفظہ انجیل برنباس فصل ۴۴، آیت ۲۷ تا ۳۱ ص۷۰)
پس آپ کے دوبارہ تشریف لانے کی یہ غرض بھی ہے کہ آپ کی خواہش مذکور پوری ہوجائے کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے نبیوں کی خواہشات کو ضرور پورا کرتا ہے۔
تیسری وجہ… یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بعض خاص کام بھی مقرر ہیں جو