مجدد ؒ اسی مکتوب میں(جس میں مؤلف القاء نے عبارت نقل کی ہے)تحریر فرماتے ہیں: ’’برکشوف خود زنہار اعتماد ننہندے کہ حق یاباطل درین دار(دنیا) ممتزج است وصواب باخطا مختلط‘‘
کہ طالب خدا کو چاہئے کہ اپنے کشفوں پر اعتماد نہ کرے کیونکہ اس دارفانی دنیا میں حق وباطل اور سچ وجھوٹ مل گئے ہیں۔
عام مخلوق اس میں فرق نہیں کر سکتی اوراپنے خیال اورطبیعت کے مناسب اس پر حکم لگا دیتی ہے اوراس کی پیرو ہوجاتی ہے۔یہاں علم بھی کام نہیں دیتا۔گزشتہ اورموجودہ زمانے کے واقعات اس پر کامل شہادت دیتے ہیں۔
خیال کرنا چاہئے کہ حضرت سرور انبیائﷺ نے دعویٰ نبوت کیا اور آپؐ کو اس وقت کے اہل عرب نے مانا آپ کے دعوے کے کچھ دنوں بعد ہی مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس طرح دعویٰ کیا کہ حضرت سرورانبیائﷺ کو تسلیم کر کے جس طرح مرزاقادیانی نے کیا۔اس کے ماننے والے بھی عرب تھے اوران کی مقدار بھی اس وقت اسی کے قریب تھی جس قدر حضرت سرورانبیاء ﷺ کے ماننے والے تھے۔ حضور سرور عالمﷺ نے اور سب مسلمانوں نے اسے جھوٹا کہا اب اس کے ماننے والے مسلمانوں کے مقابل میں یہی تقریر کرسکتے تھے جو مولف القاء نے یہاں پیش کی ہے ۔پھر کیاا س سے اس کذاب کی صداقت ثابت ہوسکتی تھی؟ اوراس کی منکر یعنی مسلمان نعوذ باﷲ ویسے ہی ہوسکتے تھے۔ جیسے منکر حضرت خاتم النبیین ﷺ کے ذرا مولف القاء ہوش کر کے اس جواب دیں۔
اسی طرح دوسری صدی میں صالح نے نبوت کا دعویٰ کیا اوربہت لوگوں نے اسے مانا اور۴۷برس تک اس نے دعویٰ نبوت کے ساتھ بادشاہت کی ۔پھر کیا یہی تقریر اس کے مریدین مسلمانوں کے مقابل میں نہیں کر سکتے تھے اور کی نہ ہوگی۔ پھر کیا اس سے اس کی سچائی ثابت ہوگئی؟ ذی فہم حضرات غور فرمائیں۔ حضرت مجددؒ کے وقت میں ایک مدعی مہدویت گزرا ہے جسے حضرت ممدوح جھوٹا کہتے ہیں۔اس کے ماننے والے خود حضرت مجددؒ کے اس قول کو پیش کر کے اسی طرح الزام دے سکتے ہیں۔سید محمد جونپوری کے ماننے والے اس وقت تک موجود ہیں جس کو دعویٰ مہدویت کے علاوہ افضل الانبیاء ماننے کا دعویٰ تھا اورعبدالبہاخود مدعی اس وقت موجود ہے۔اس دونوں کے مریدین مجدد صاحب کی یہ عبارت اپنی صداقت میں پیش کر کے مؤلف القاء