دوامر است پش شیخ راازین احیا واماتت چارہ نباشد ومعنی یحییٰ ویمیت یبقی ویفینی احیاء اماتت جسمی بمنصب شیخ کاری نیست شیخ مقتداحکم کردہ بادار اہرکس راباومناسبت است دررنگ خس وخاشاک درعقب اومیدہد ونصیب خورداازوے استیفامی نماید ۔خوارق وکرامات از برائے جذب مرید ان نیست مریدان بمناسبت معنویہ منجذب میگرداند واتکہ باین بزرگوار ان مناسبت ندارد از دولت کمالات۱؎ ایشان محروم ست اگرچہ ہزار ۔معجزہ وخوارق وکرامت بیند ابوجہل وابولہب راشاہداین معنی بایدگرفت! (مکتوب دوصدونود ودوجلد اوّل ص ۴۱۴،۴۱۷)
اوریہ جو بزرگان دین نے فرمایا ہے کہ الشیخ یحیی ویمیت، اس سے مراد روح کی تروتازگی اورپژ مردگی ہے۔کسی جسم مردہ میں نہ شیخ جان ڈال سکتا ہے نہ اسے مار سکتا ہے۔ یہ توخدا کاکام ہے۔ احیاء اوراماتت کے معنی بقاء اورفناء کے ہیں اور یہ ولایت میں ایک اعلیٰ درجہ کامقام ہے۔شیخ کی توجہ سے انسان فناء اوربقاء کی ہستی معلوم کرکے اسے حاصل کر سکتا ہے۔شیخ باذن خدا وندی اس فناء اور بقاء کا کفیل ہوتا ہے۔مگر شیخ مقتداایک کاہ(کاہ رباوہی ہے جسے کہہ ربا کہتے ہیں۔ایک قسم کاپتھر ہے۔جس طرح مقناطیس لوہے کو کھنچتا ہے اسی طرح کہہ ربا خس وخاشاک کو کھینچتا ہے)پیچھے مرید خود بخود دوڑتا ہے اوراپنے حصہ کوپا لیتا ہے اورجس میں یہ قابلیت نہیں ہوتی وہ شیخ کے فیض سے محروم رہتا ہے اورہزار معجزے اورخوارق کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔مثلاً ابوجہل وابولہب کودیکھو کہ حضرت رسول اﷲﷺ تبلیغ اسلام فرماتے رہے اور وہ مشرب بااسلام نہ ہوا۔
۱؎ حضرت مجدد علیہ الرحمہ کے اس جملہ کو دیکھو جو انصاف پسند مرزاقادیانی کے حالات سے واقف ہوگا وہ بے تامل کہہ دے گا کہ یہ حوالہ پیش کرنا بے کار ہے۔ کیونکہ وہاں تو کمالات باطنی کاکہیں پتہ نہیں ہے۔ ان کے صحبت یافتہ جس قدر دیکھے اورسنے گئے وہ سب ایمانی خصائل سے محروم ہیں اور کمالات باطنی تو بہت بڑی بات ہے ۔البتہ جھوٹ اورفریب اوراشاعت کذب میں بڑے مستعد ہیں۔ نہ نماز وروزہ کی پابندی ہے نہ معاملات کی صفائی ہے۔ دیکھئے خواجہ کمال الدین جو مرزاقادیانی کے نہایت خاص مرید اورصحبت یافتہ ہیں۔ان کے حالات اخباروں میں چھپ رہے ہیں ۔ کیسی کیسی ذی ایمانیت انہی کے بھائی ظاہر کر رہے ہیں۔ اخبار وطن اوررسالہ الحق وغیرہ دیکھا جائے۔ اب وہ خلیفہ ہوئے ہیں ان کے حالات بھی پیام صلح وغیرہ میں چھپے ہیں۔ پیسہ اخبار دیکھا جائے ۔یہ نہایت مخصوص صحبت یافتوں کی مرزاقادیانی کی حالت پر پوری روشنی ڈالتے ہیں۔