جانچ کے بعد یقین رکھتے ہیں کہ یہ گہن حدیث نبوی کے مطابق نہیں ہوا۔ مگر اقوام غیر اس سے کیا مستفید ہوں گے اور کسر صلیب کیونکر ہوگا۔ خود ایک غلط دعویٰ کررہے ہیں اور اس لئے اہل حق سے حاجت دریافت کرتے ہیں۔ خدائی حاجت دریافت کرنے والے مر زا قادیانی کون تھے۔ اس کی مشیت جو چاہے کرے اور جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ انسان ضعیف البنیان کی کیا ہستی کہ مخلوق بن کر خالق کے راز کی لم اور حاجت دریافت کرے سوائے شیطانی وسوسہ کے اور کیا ہوسکتا ہے۔
تو ان در بلاغت بسبحان رسید
نہ درکنہ بیچوں سبحان رسید
خدا کو کیا حاجت تھی مرزا قادیانی کا یہ جملہ سراسر بے ادبی سے بھرا ہوا ہے۔ خدا جب حاجت مند ٹھہرا تو وہ خدا کیونکر رہا۔ میرے خدا کی تو صفت یہ ہے: ’’قل ہو اﷲ احد، اﷲ الصمد‘‘ مرزا قادیانی کے نزدیک کوئی دوسرا محتاج خدا بھی ہے۔ ’’اﷲ اﷲ ربی لا اشرک بہ شیئاً‘‘
تلاش دیرو حرم میں عبث نہ کیونکر ہو
تیرا ظہور بھی جب اشتباہ میں رکھے
ستہ ضروریہ کا ص۴ ملاحظہ ہو: حضرت خواجہ عبید اﷲ الاحرار جو حضرت جامیؒ کے پیرومرشد تھے اور جن کے فیضان انوار کا ایک زمانہ قائل ہے وہ خدائے بے نیاز کی درگاہ میں نہایت ہی خشوع وخضوع سے یوں عرض کرتے ہیں:
چوں بدرگاہ تو خودر ادر پناہ آور دہ ام
یا الٰہ العالمین بار گناہ آور دہ ام
بردرت زین بار خود پشت دو تا آوردہ ام
عجزو زاری بردر عالم پناہ آوردہ ام
من نمی گویم کہ بودم سالہا در راہ تو
ہستم آن گمرہ کہ اکنون روبراہ آوردہ ام
چار چیز آوردہ ام حقا کہ در راہ تونیست
نیستی وحاجت وعذر وگناہ آوردہ ام
درد در ویشی ودلریشی وبیخویشی بہم
ایں ہمہ بردعویٰ عشقت گواہ آوردہ ام