تیسر ی رات کے چاند سے شروع ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک ساتویں رات سے قمر بولا جاتا ہے۔چاند کی پہلی رات سے مراد تیرہویں رات ہے اور سورج کے بیچ کے دن سے مراد اٹھائیسواں دن ہے تحریر فرماتے ہیں۔’’اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی مدعی نبوت یا رسالت کے وقت میں یہ دونوں گرہن رمضان میں کبھی کسی زمانہ میں جمع ہوئے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ اس کاثبوت دے خاص کر یہ امر کس کو معلوم نہیں کہ اسلامی سن یعنی تیرہ سو برس میں کئی لوگوں نے محض افتراء کے طور پر مہدی موعود ہونے کا دعویٰ بھی کیا بلکہ لڑائیاں بھی کیں مگر کون ثابت کر سکتا ہے کہ ان کے وقت میں چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان کے مہینہ میں دونوں جمع ہوئے تھے اور جب تک یہ ثبوت پیش نہ کیا جائے تب تک بلاشبہ یہ واقعہ خارق عادت ہے۔ کیونکہ خارق عادت اسی کو تو کہتے ہیں کہ اس کی نظیردنیا میں نہ پائی جائے۔ اور صرف حدیث ہی نہیں بلکہ قرآن شریف نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے دیکھو آیت وخسف القمر و جمع الشمش والقمر!‘‘
پھر اسی کتاب کے (ص۱۹۷خزائن ج۲۲ ص۲۰۵) میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اور اس حدیث سے بڑھ کر اور کون سی حدیث صحیح ہوگی۔ جس کے سر پر محدثین کی تنقید کا بھی احسان نہیں بلکہ اس نے اپنی صحت کو آپ ظاہر کر کے دکھلادیا کہ وہ صحت کے اعلیٰ درجہ پر ہے۔‘‘
پھر جناب مرزا غلام احمد (رسالہ جاء الحق وسراج منیر ص ۵۸، خزائن ج۱۲ ص۶۷) میں تحریر فرماتے ہیں اٹھارہویں پیش گوئی۔ یہ پیش گوئی وہ ہے جو (براہین احمدیہ کے ص ۲۴۰ خزائن ج ۱ ص۲۶۶) میں مندرج ہے قل عندی شھادۃ من اﷲ فھل انتم مومنون۔ قل عندی شھادۃ من اﷲ فھل انتم مسلمون۔یعنی کہہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے پس کیاتم اس پر ایمان لائو گے کہہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے کیا تم اس کو قبول کروگے یہ دونوں فقرے بطور پیش گوئی کے ہیں اور اسی آسمانی نشانوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو بطور پیش گوئی کے ہوں کیو نکہ خدا کی گواہی نشان کو ملاتی ہو چنانچہ بعد اس کے یہ گواہی کہ خسوف کسوف رمضان میں کیا ۔جیساکہ آثارمیں مہدی موعود کے نشانیوں میں آچکا تھا۔‘‘
یہ ہیں مرزا قادیانی کے غلط اور پیچیدہ استدلال جو آپ نے دارقطنی کی ایک ضعیف حدیث سے کیا ہے۔دارقطنی کی وہ حدیث یہ ہے:
محمد بن علی قال ان لمھدینا اٰیتین لم تکونا منذ خلق السمٰوٰت والارض ینکسف القمرلاول لیلۃمن رمضان و تنکسف الشمس فی النصف