دو نشان مقرر ہیں۔ اور جب سے کہ زمین و آسمان پیدا کئے گئے وہ دو نشان کسی مدعی کے وقت ظہور میں نہیں آئے اور وہ یہ ہیں کہ مہدی کے ادعا کے وقت میں چاند اس پہلی رات میں گرہن ہوگا جو اس کے خسوف کے تین راتوںمیں سے پہلی رات ہے یعنی تیر ہویں رات اور سورج اس کے گرہن کے دنوں میں سے اس دن گرہن ہوگا جو درمیان کا دن ہے یعنی اٹھائیس ۲۸ تاریخ کواور جب سے دنیا پیدا ہوئی جو کسی مدعی کے لئے یہ اتفاق نہیں ہو کہ اس کے دعویٰ کے وقت میں خسوف رمضان میں ان تاریخوں میں ہواہو۔آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا اس غرض سے نہیں تھا کہ وہ خسوف و کسوف قانون قدرت کے بر خلاف ظہور میں آئے گااورنہ خدیث میں کوئی ایسا لفظ ہے بلکہ صرف یہ مطلب تھا کہ اس مہدی سے پہلے کسی مدعی صادق یا کاذب کو یہ اتفاق نہیں ہواہوگا کہ اس نے مہدویت یا رسالت کا دعویٰ کیا ہو اور اس کے وقت میں ان تاریخوں میں رمضان میں کسوف خسوف ہوا ہو۔‘‘ پھر علما نے اہل سنت و الجماعۃ کو برا بھلا کہتے ہوئے آگے چل کر یوں لکھتے ہیں۔’’یہودیوں کے لئے خدانے اس گدھے کی مثال لکھی جس پر کتابیں لد ی ہوں مگر یہ خالی گدھے ہیں اور اس شرف سے بھی محروم ہیں جو ان پر کوئی کتاب ہو۔ہر ایک عقلمند جس کو ذرا انسانی عقل میں سے حصہ ہو سمجھ سکتا ہے کہ اس جگہ لم تکونا کا لفظ آیتوں سے متعلق ہے جس کے معنی ہیں کہ یہ دونوں نشان بجز مہد ی کے اور کسی عطا نہیں کیے گئے۔ پس اس جگہ یہ کہاں سے سمجھا گیا کہ یہ کسوف خسوف خارق عادت ہوگا۔ بھلا اس میں وہ کونسا لفظ ہے جس سے خارق عادت سمجھا جائے اور جبکہ مطلوب صرف یہ بات تھی کہ ان تاریخوں میں کسوف خسوف رمضان میں ہونا کسی کے لئے اتفاق نہیں ہوا صرف مہدی موعود کے لئے اتفاق ہوگا تو پھر کیا حاجت تھی کہ خدا تعالی اپنے قدم نظام کے برخلاف چاند گرہن پہلی رات میں جبکہ خود چاند کی کالعدم ہوتاہے کرتا خدانے قدیم سے چاند گرہن کے لئے ۱۳، ۱۴، ۱۵اور سورج گرہن کے لئے ۲۷،۲۸،۲۹مقرر کررکھے ہیں سو پیش گوئی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ یہ نظام اس روز ٹوٹ جائے گا جو شخص ایسا سمجھتا ہے وہ گدھاہے نہ انسان۔‘‘ پھر اسی کتاب میں فرماتے ہیں: ’’اے اسلام کے عارمولویو ذرا آنکھیں کھولو اور دیکھو کس قدر تم نے غلطی کی ہے ۔جہالت کی زندگی سے تو موت بہتر ہے صاف ظاہر ہے کہ اس حدیث میں کسوف خسوف کو بے نظیر نہیں ٹھہر ایاگیا بلکہ اس نسبت کو بے نظیر ٹھہرایا گیا ہے۔ جو مہدی کیساتھ اس کہ واقع ہے۔‘‘پھر مرزاغلام احمدقادیانی (حقیقت الوحی ص۱۹۶،خزائن ج۲۳ص۲۰۴،۲۹۳) میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ چاند کی پہلی رات کو قمر نہیں کہتے ہلال کہتے ہیں قمر کا اطلاق محاورہ عرب میں