بعد کسی اور نبی کی ضرورت نہیں کہ وہ دین کو کامل کرنے کے لئے آئے جیسے پہلے آتے تھے۔‘‘
(بیان القرآن ج۱ ص۵۹۵) (فہو المراد)
کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
جادو وہ جو سر پہ چڑھ بولے
پس حضورﷺ کی رحمتہ للعالمینی یہ ہے کہ:
۱… آپ تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے تاکہ سارا جہان آپ کی رحمت سے فیض پائے اور قیامت تک کوئی آدمی اس فیض سے محروم نہ رہے۔
۲… آپ کی رحمتہ للعالمینی یہ ہے کہ آپ کے ساتھ دین کامل ہوگیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی نعمت پوری کردی۔ اب کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہی جو اس دین میں نہ ہو۔
۳… آپ کی رحمتہ للعالمینی یہ ہے کہ گنہگار سے گنہگار انسان آپ کی تابعداری سے خدا تعالیٰ کا محبوب بن سکتا ہے اور مغفرت پاسکتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ’’قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ ویغفرلکم ذنوبکم واﷲ غفور الرحیم (آل عمران:۳۱)‘‘ {اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے لئے بخشش کرے گا اور گناہ معاف کردے گا۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔}
۴… آپ کی رحمتہ للعالمینی یہ ہے کہ آپ شفیع المذنبین ہیں:
ہو الحبیب الذی ترجیٰ شفاعتہ
لکل ہول من الاحوال مقتحم
وہ خدا تعالیٰ کے حبیب ہیں، آپ کی شفاعت کی امید رکھی ہوئی ہے۔ ہر خوف میں جو سختی کے ساتھ آنے والا ہے۔
۵… آپ کی رحمتہ للعالمینی یہ ہے کہ آپ کے مبعوث ہونے کے ساتھ عذاب الٰہی رک گیا چنانچہ قرآن مجید میں ہے: ’’وما کان اﷲ لیعذبہم وانت فیہم (انفال:۳۳)‘‘ {اور اللہ ایسا نہیں کہ ان کو عذاب دے در آنحالیکہ تم ان میں ہو۔}
علامہ اسمٰعیل حقیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’قد ارسلہ اﷲ تعالیٰ رحمۃ للعالمین۔ والرحمۃ والعذاب ضدان، والضدان لا یجتمعان‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمتہ للعالمین بنا کر بھیجا ہے اور رحمتہ اور عذاب ایک دوسرے کی ضد ہیں اور دو ضدیں آپس