پس باب نبوت مسدود ہونا آپ کی رحمت کے منافی نہیں بلکہ آپ کی رحمت اللعالمین کے لئے اسی طرح وسیع ہے جس طرح اپنی ربوبیت کے ساتھ ’’عالمین‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے: الحمدﷲ رب العالمین۔ اسی طرح اپنے محبوب کی رحمت کے ساتھ ’’عالمین‘‘ کو وابستہ کیا ہے: وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین۔ پس جس کی آنکھیں ہوں دیکھئے اور جس کے کان ہوں سنے۔
حضورﷺ کا ’’رحمتہ للعالمین‘‘ ہونا اجرائے نبوت کا متقاضی نہیں بلکہ ختم نبوت کا مقتضی ہے۔ کیونکہ پہلے نبی اپنی اپنی قوم کے لیء آتے تھے مگر حضورﷺ تمام قوموں کے لئے مبعوث ہوئے جیسا کہ قرآن مجید شاہد ہے: ’’قل یایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا الذی لہ ملک السموت والارض (اعراف:۱۵۸)‘‘ {اے پیغمبر کہو، اے لوگو میں تم سب کی طرف (اس) اللہ کا رسول ہوں جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔} دوسری آیت میں یہ ارشاد ہے: ’’وما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیراً ونذیرا ولکن اکثر الناس لایعلمون (سبا:۲۸)‘‘ {اور ہم نے تجھے تمام ہی لوگوں کے لئے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔}
اس آیت کے متعلق مولوی محمد علی مرزائی، امیر لاہوری پارٹی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ ’’یہاں اس لفظ ’’کافۃ‘‘ کو اختیار کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ کی رسالت عامہ سے اب کوئی شخص باہر نہیں نکل سبکتا گویا اس سے خروج سے روکا گیا ہے کیونکہ کف کے معنی روکنا ہیں۔ یہ آیت بھی ختم نبوت پر دلیل ہے کیونکہ جب کوئی شخص اس رسالت سے باہر نہیں نکل سکتا تو اور رسول کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘ (بیان القرآن، ج۳ ص۵۳۹) (فہو المراد… مؤلف)
نبی کے مبعوث ہونے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دین کی تکمیل ہو سو حضورﷺ کی بعثت سے یہ غرض بھی بدرجہ غایت پوری ہوگئی۔ خدا تعالیٰ نے آپ کے ساتھ دین کو کامل اور اپنی نعمت کو پورا کردیا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (مائدہ:۳)‘‘ {آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کردیا اور تمہارا دین اسلام ہونے پر میں راضی ہوا۔} اس آیت کی تفسیر میں مولوی محمد علی صاحب مذکور لکھتے ہیں۔ ’’پس ’’اکملت لکم دینکم‘‘ سے مراد یہ ہوئی کہ جو غرض دین سے حاصل ہوسکتی ہے‘ وہ بدرجہ کمال تمہارے اس دین سے حاصل ہوگی۔ اب اس کے