میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ (اس لئے آپ کے) ہوتے ہوئے عذاب کیونکر آسکتا ہے۔
(تفسیر روح البیان ج۱ ص۸۴۰)
پس مندرجہ بالا امور سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ رحمتہ للعالمینی پر باب نبوت کے مسدود ہونے سے کوئی زد نہیں پڑتی۔
کہنے کو مرزا قادیانی کا دعویٰ بھی ہے کہ ’’رحمتہ للعالمین‘‘ ہوں جیسا کہ اسی رسالہ میں اوپر گزر چکا ہے۔ مگر
چہ نسبت خاک را باعالم پاک
حضورﷺ کی رحمتہ للعالمینی سے تو تمام دوست دشمن مستفید ہوئے اور عذاب الٰہی سے بچے۔ مگر مرزا قادیانی کی رحمتہ للعالمینی ملاحظہ ہوں۔ مرزا قادیانی لکھتے ہیں:
۱… ’’الامراض تشاع والنفوس تضاع یعنی ملک میں بیماریاں پھیلیں گی اور جانیں ضائع ہوں گی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۹۴، طبع اول، مئی ۱۹۰۷ئ، خزائن ج۲۲ ص۹۷)
۲… ’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقینا سمجھو جیسا کہ پیش گوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے۔ ایسے ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۵۶، خزائن ج۲۲ ص۲۶۸ سطر ۶ تا۹)
۳… ’’اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلائوں میں کچھ تاخیر ہوجاتی، پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو بڑی مدت سے مخفی تھے، ظاہر ہوگئے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۵۶، خزائن ج۲۲ ص۲۶۸)
ایسا ہی اور بھی بہت سے نشان جناب مرزا قادیانی نے اپنی رحمتہ للعالمینی کے لکھے ہیں۔
ببیں تفاوت راہ کجاست تا بکجا
رہا امت کا ’’خیر الامم ہونا‘‘ سو یہ شرف بھی امت کو حضورﷺ کے طفیل حاصل ہوا ہے۔ صاحب قصیدہ بردہ فرماتے ہیں:
بشریٰ لنا معشر الاسلام ان لنا
من العنایۃ رکنا غیر منہدم
{اے گروہ اسلام ہمارے لئے خوشخبری ہو کہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ کی عنایت سے ایسا رکن ہے (یعنی محمد مصطفیﷺ) جو خراب وشکستہ ہونے والا نہیں۔}