ان میں ظاہر اور بطن ہوا کرتے ہیں یہ تفسیر باطنی ہے یا الہام خداوندی ہے،کون ہے جو خدا کی باتوں کو رد کر سکے اور اگرخیر سے کوئی ضعیف حدیث یا عامیانہ باتیں کسی پہلو سے (اگرچہ وہ پہلو غلط ہی کیوں نہ ہو) اپنے خیال کے کس قدر مناسب نکل آئیں تو مالایدرک کلہ لاتیرک کلہ کے رو سے بڑی طول طویل مگر پیچیدہ اور بے سروپا جملوں سے ربط دیتے ہوئے لکھ دیا کہ فلان شخص نے جو یہ پیشگوئی کی ہے اس کا مصداق میں ہوں اور یہ حدیث جو میں پیش کر رہا ہوں۔خاص میری ہی شہادت کے لئے جو زمانہ میں کس قدر جہالت اور تاریکی پیدا ہوگئی ہے کہ لوگ حدیث کو بھی وقعت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے یہ اندھیرا ہے اور یہ غضب ہے وغیرہ وغیرہ۔ آپ ملاحظہ فرمائیں کہ اس مکتوب میں حضرت مجدد صاحب ؒ۹ علامتیں حدیث نبوی سے بیان فرماتے ہیں آٹھ سے مرزاقادیانی کی تحریریں بالکل دم بخودہیں اور نویں علامت یعنی رمضان شریف کے اول ماہ میں چاندگہن اور اس کے ۱۴تاریخ کو سورج گرہن کا ہونا۔ جوزمانہ کے عادت اور منجم کے حساب کے بالکل خلاف بطور خرق عادت اور معجزہ کے ہوگا۔ اس طرح پر تو واقع نہیں ہوا۔ مگر اتفاق سے زمانہ کے عادت کے موافق اور نجوم کے مقررہ قاعدہ پر رمضان شریف میں چاندگہن اور سورج گہن ہوا۔ بس لگے کہنے کہ دیکھو زمین آسمان دونوں نے میری شہادت دی خدا کی پناہ یہ افتراء اور یہ غلط ادعا۔چھوٹا منہ اور بڑی بات نہایت ہی حیرت خیز ہے۔
قبل اس کے کہ میں اس پر کافی روشنی ڈالوں مرزا صاحب کی کتاب سے تھوڑی عبارت نقل کئے دیتا ہوں اسے ملحوظ خاطر فرماکر ذیل کی بحث کو ملاحظہ فرمائیں۔ جناب مرزاقادیانی (کتاب البریہ ص ۶۷خزائن ج۱۳ ص۹۲،۹۱) میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اور ہم یقینی طور پر ہر ایک طالب حق کو ثبوت دے سکتے ہیں کہ ہمارے سیدو مولانا آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے آج تک ہر ایک صدی میں ایسے باخدا ہوتے رہے ہیں جن کے ذریعہ سے اﷲتعالیٰ غیر قوموں کو آسمانی نشان دکھلا کران کو ہدایت دیتا رہا ہو۔جیسا کہ سید عبدالقادر جیلانی اور ابوالحسن خرقانی اور ابویزید بسطامی اور جنید بغدادی اور محی الدین ابن عربی اور ذوالنون مصری اور معین الدین چشتی اجمیری اور قطب الدین بختیار کاکی اور فریدالدین پاک پٹنی اور نظام الدین دہلوی اور شاہ ولی اﷲدہلوی اور شیخ احمد سر ہندی ؓاسلام میں گذرے ہیں اور ان لوگوں کا ہزار تک عدد پہنچا ہے اور اس قدر ان لوگوں کے خوارق علماء اور فضلاء کی کتابوں میں منقول ہیں کہ ایک متعصب کو باوجود سخت تعصب کے آخر ماننا پڑتا ہے کہ یہ لوگ صاحب خوارق و کرامات تھے۔‘‘