جب حضرت مہدی علیہ السلام کو اس کی حالت کی خبر ہوگی) آپ اس نافہم عالم کے قتل کرنے کا فرمان جاری فرمائیں گے اور جس برے عمل کو (اپنی نافہمی سے) اس نے اچھا سمجھ رکھا تھا۔ اس کی برائی لوگوں پر ظاہر کردیں گے۔ ایسا مہتمم بالشان فضل اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔ اﷲ اپنے فضل کو جسے چاہے عطاء فرمائے۔ حقیقت میں وہ بڑا ہی صاحب فضل ہے۔
اس مکتوب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام بادشاہ وقت ہوںگے اور ان کی ایک مستقل سلطنت ہو گی اور آپ ہی کے شاہی فرمان سے عالم کا نظم و نسق ہوگا۔ آپ غایت درجہ کے متبع سنت ہوں گے اور احیائے سنت فرمائیں گے۔ مدینہ طیبہ کا ایک بدعتی کج فہم عالم ان کے درپے تخریب ہوگا اور لوگوں کو بہکائے گااور کہے گا کہ یہ شخص اچھا نہیں معلوم ہوتا ہے میرے دین کو خراب و برباد کرنا چاہتا ہے مگر اس نافہم عالم کا اقتدار حضرت مہدی علیہ السلام کے مقابلہ
میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اس کے فتنہ و شر سے مخلوق خدا کو محفوظ رکھنے کے لئے حضرت مہدی علیہ السلام یہ فرمان جاری فرمائیں گے کہ اس بیہودہ نافہم عالم کو قتل کر ڈالو۔
یہ مہتم بالشان واقعہ حضرت مہدی علیہ السلام کے زمانے میں ہوگا۔ مؤلف القاء ربانی مجدد صاحب کی اس تحریر سے مرزا غلام احمد صاحب کو جو ایک معمولی انسان تھے بادشاہ وقت اور مہدی قرار دینا چاہتے ہیں اور بزعم باطل خود پہلے حوالہ سے مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود ثابت کر چکے ہیںاور یوں دونوں خطاب مسیح موعود اور مہدی مسعود کا مرزا غلام احمد صاحب کو عطا فرماتے ہیں جنہیں میں اچھی طرح دکھا چکا ہوں کہ یہ بالکل فریب دہی اور نری جہالت ہے شاید کوئی جاہل اس دام تزدیر میں آجائے تو آجائے ورنہ ایک معمولی فہم کا آدمی بھی بھولے سے کبھی اس تحریر سے یہ خیال نہیں کرسکتا کہ اس تحریر سے مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودو مہدی مسعود ٹھہرے بلکہ ہر ایک شخص ایک ادنیٰ غورفکر سے اس حقیقت کی تہ تک نہایت آسانی سے پہنچ جائے گاکہ اسی ایک مکتوب سے مرزا غلام احمدقادیانی کے دعویٰ مسیح موعودومہدی مسعود کی غلطی ظاہر ہوگئی کیونکہ حضرت مجددالف ثانی ؓ کے صرف اسی مکتوب سے یہ تین باتیں صاف طریقہ سے ظاہر ہوتی ہیں(۱)مہدی علیہ السلام کی ایک مستقل سلطنت ہوگی وہ بادشاہ وقت ہوں گے(۲)مدینہ طیبہ کا ایک بدعتی عالم ان کی ترویج دین کو برا سمجھے گا۔(۳)حضرت مہدی ؑ اس کے قتل کا فرمان جاری فرمائیں گے۔ان تین باتوں میں سے ایک بات بھی مرزا غلام احمدقادیانی میں پائی نہیں جاتی سلطنت تو ایک بڑی چیز ہے ایک خود مختاری نہیں بلکہ ایک غیر اختیاری ریاست کی باگ بھی ان کے ہاتھ میں نہیں رہی پھر