بھی اجتہاد آپ کا ایسا نہ ہوگا) جس سے نسخ شریعت محمدیہ لازم آئے ممکن ہے کہ علمائے ظواہر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اجتہادی مسائل پر بوجہ باریک اور دقیق ماخذ کے انکار کریں اور مخالف کتاب وسنت جانیں۔}
مسلمانو! ذرا انصاف سے کہنا خدا لگتی کہ مؤلف القاء ربانی نے کس طرح سے حضرت مجددالف ثانی ؓ کے قول کو پیش کیا ہے۔ اصل حضرت عیسٰی علیہ السلام اور آخر میں جہاں ان کے اجتہاد کا وزن حضرت مجددالف ثانی نے مثال دیکر بیان فرمایا ہے کہ مثل روح اﷲومثل امام اعظم کو اس مثال کو بھی تحریر نہیں فرمایا اور مزید بران جہال کو خوش کرنے کے لئے عربی اور فارسی کے پروفیسر ہوتے ہوئے اس فارسی عبارت کا ترجمہ بھی غلط لکھ دیا اور اس ایک مختصر سے حوالہ میں تین دانستہ فریب دہی اور دروغ گوئی سے کام لیا ہے جس کے دل میں ذرا سا بھی نور ایمان اور کچھ بھی خشیت خدا وندی ہو وہ ہرگز ایسا فریب جائز نہیں رکھ سکتا۔ چہ جائے کہ مسیح موعود سے بیعت حاصل کر کے تاریکی کے زمانہ سے نکل کر نورانی زمانہ میں اپنے کو داخل سمجھتا ہو۔ اس دانستہ فریب دہی کی وجہ اظہر من الشمس ہے اگر راست گفتاری سے کام لیا جاتا تو اسی ایک تحریر سے ساری حقیقت منکشف ہو جاتی اور یہ بات ہر انسان سمجھ جاتا کہ درحقیقت حضرت عیسٰی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے انہی کے سر مسیح موعودکا مبارک تاج رکھا جائے گا اور جب یہ بات ثابت ہوگئی تو پھر بحث ہی کا خاتمہ ہوگیا۔ مرزا غلام احمد صاحب ایک عام انسان کی ہستی میں نظر آنے لگے پھر الہام کجا اور اس کے صدق و کذب پر بحث کیسی؟ الغرض حضرت مجدد الف ثانی ؓ تو یہ فرما رہے ہیں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے اور کا اجتہاد امام اعظم ؒ جیساہوگا۔ چنانچہ آگے چل کر آپ یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام (جب دوبارہ)
’’حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام بعد از نزول مذہب امام ابی حنیفہ عمل خواہد کرد یعنی اجتہاد حضرت روح اﷲ علیہ السلام موافق اجتہاد امام اعظم خواہد بود نہ آنکہ تقلید این مذہب خواہد کرد علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کہ شان او علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام از ان بلند ترہست‘‘
{تشریف لائیں گے تو امام ابو حنیفہ ؒ کے مذہب پر آپ کا عمل ہوگا یعنی آپ کا اجتہاد امام ابو حنیفہؒ کے اجتہاد کے موافق ہوگا اگرچہ آپ ان کے مقلد نہ ہوں گے کیونکہ آپ کی شان (بوجہ نبی ہونے کے) اس سے بلند تر ہے۔}