پس مندرجہ بالا بیان سے دو باتیں ثابت ہوئیں:
اول… یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ تشریف لانا ختم نبوت کے منافی نہیں جو شخص اس قسم کا شبہ کرتا ہے وہ غلطی پر ہے۔
دوم… یہ کہ مرزا قادیانی کا مقصد احیائے سنت نہیں بلکہ احیائے بدعت ہے جیسا کہ انہوں نے معتزلیوں اور جہمیوں کا مندرجہ بالا بھولا بسر ا عقیدہ دوبارہ زندہ کیا ہے تاکہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں۔ بقول شخصے
بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
دوسرا شبہ… یہ کہا جاتا ہے کہ اگر امت مسلمہ میں باب نبوت مسدود ہوجانا تسلیم کرلیا جائے تو کیا آنحضرتﷺ کے رحمتہ للعالمین ہونے اور اس امت کے خیر الامم ہونے پر زد نہیں پڑتی؟
جواب… یہ سوال نہایت لغو، بیہودہ اور بنائے فاسد علی الفاسد ہے۔ جس بناء پر یہ شبہ کیا گیا ہے وہ مرزا قادیانی کا ارشاد بے بنیاد ہے جو یہ ہے: ’’ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ جس مذہب میں سلسلہ نبوت نہ ہو، وہ مردہ ہے۔‘‘ (ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷)
تعجب ہے کہ یہی مرزا قادیانی جواب اجرائے نبوت کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ قبل از یں ختم نبوت قرآن مجید سے ثابت کرچکے ہیں اور مدعی نبوت پر کفر کا فتویٰ لگا چکے ہیں جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے۔ بس اب ان کا یہ اعتقاد بے بنیاد ومحض دروغ بے فروغ اور دعویٰ بلا دلیل ہے جو باطل بلاقال وقیل ہے اور یہ تحریر ان کی تناقض بیانی پر دال ہے۔ جو ان کی ناراستی کی ایک بیّن مثال ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
ہاں جناب! امت مسلمہ میں باب نبوت مسدود ہوجانے سے حضورﷺ کے رحمتہ للعالمین پر زد نہیں پڑتی بلکہ باب نبوت کھلا رہنے پر زد پڑتی ہے۔ کیونکہ ایک نبی کا زمانہ اسی وقت تک رہتا ہے جب تک کوئی دوسرا نبی نہ آجائے۔ جب دوسرا نبی آجاتا ہے تو پہلے نبی کا زمانہ ختم ہوجاتا ہے پس اگر حضورﷺ کے بعد باب نبوت مسدود نہ ہو تو آپ کا زمانہ بھی (نعوذ باﷲ) مسدود ہوجائے مگر آپ نبی آخر الزماں ہیں اور سرور دو جہاں ہیں۔ آپ کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے جو مرزا قادیانی کے عقیدہ فاسدہ کے رد کرنے کے لئے ایک سد ہے۔
سید الکونین ختم المرسلین
آخر آمد بود فخر الاولین