ہی شخص ہوں گے اور کیا کہیں گے؟ اور ان نافہموں کے جواب میں جناب مہدی علیہ السلام کا فرمان کیا ہو گا؟ مکتوب پنجاہ و پنجم جلد ثانی میں حضرت مجدد الف ثانی ؓ نے قرآن مجید اور احادیث نبویہ سے جو احکام شریعت مستبنط ہوتے ہیں ان کی اقسام کو بیان فرمایاہے اور ان کے مراتب کے متعلق فرماتے ہیں کہ بنی کے اجتہادین غلطی واقع نہیں ہوسکتی بلکہ بوحی قطعی صواب محقق ازخطائے مخطی متمیز میگشت این باباطل ممتزج نمی ماند کہ تقریر و تشبیت مبنی بر خطا مجوز نیست۔ یعنی نبی مسائل اجتہادیہ میں خطا پر ہرگز قایم و برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس بحث کی تشریح فرماتے ہوئے منجملہ اور امثلہ کے ایک مثال یوں بیان فرماتے ہیں۔
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعد از نزول کہ متابعت این شریعت خواہد نمود اتباع سنت آن سرور عالم علیہ الصلوٰۃ والسلام خواہد کردو نسخ این شریعت مجوز نیست نزدیک ست کہ علمائے ظواہر۱؎ ہر مجتہدات اور اعلیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام از کمال وقت وغموض ماخذ انکار نمایند ومخالف کتاب وسنت دانند‘‘
{حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام جب آپ (دوبارہ) دنیا میں تشریف لائیں گے تو آپ بھی (حالانکہ آپ خود نبی ہوں گے) شریعت محمدیہ کی پیروی کریں گے اور (کوئی
۱؎ حضرت مجدد الف ثانیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ علمائے ظواہر ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اجتہادی مسائل میں بوجہ کمال دقت وغموض ماخذ انکار کریں مگر یہاں معاملہ بالکل ہی برعکس ہے جتنے جہال اور دین کے علم سے بے بہرہ حضرات ہیں اور جنہیں دوسرے الفاظ میں علمائے ظواہر کہا جاتا ہے وہ مرزا قادیانی کو نافہمی سے مسیح موعود مان رہے ہیں اور جتنے اکابر علماء اور مجدد وقت گزرے ہیں اور موجود ہیں سب مرزا قادیانی کے دعوے کو غلط بتا رہے ہیں۔ مثلاً قطب ہند حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب قدس سرہ، جناب مولانا رشید احمد صاحب (گنگوہی)، جناب مولانٰا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلی، جناب مولانا محمد لطف اﷲ (علی گڑھی) صاحب اور کاملین علمائے حرمین شریفین علمائے ظواہر میں داخل ہیں؟ ہرگز نہیں۔
مؤلف القاء ربانی علمائے ظواہر پر مکرر دیانت کو مد نظر رکھ کر غور فرمائیں اور اس عقائد باطلہ سے رجوع فرمائیں۔