۳… اور مندرجہ بالا شبہ کا جواب بھی دے دیا گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ تشریف لانا ختم نبوت کے منافی نہیں کیونکہ وہ حضور سے پہلے کے نبی ہیں بعد کے نہیں۔
واضح ہو… کہ مرزا قادیانی کا شبہ کوئی نیا شبہ نہیں ہے اور نہ اس میں مرزا قادیانی کی کوئی جدت ہے بلکہ یہ شبہ مرزا قادیانی سے بہت عرصہ پہلے معتزلی اور جہمی فرقوں کے بعض لوگ پیش کرکے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری کا انکار کرچکے ہیں اور نزول مسیح کی احادیث کو مردود قرار دے چکے ہیں۔ چنانچہ علامہ نوویؒ نے شرح مسلم میں قول مع استدلال نقل کرکے نہایت دندان شکن جواب دیا ہے جو یہ ہے: ’’وانکر بعض المعتزلۃ والجہمیۃ ومن وافقہم وزعموا ان ہذہ الاحادیث مردودۃ بقولہ تعالیٰ {وخاتم النّبیین} وبقولہﷺ لا نبی بعدی، وباجماع المسلمین انہ لا نبی بعد نبیناﷺ وان شریعتہ مؤبدۃ الٰی یوم القیمۃ لا تنسخ، وہذا استدلال فاسد لانہ لیس المراد نزول عیسیٰ انہ ینزل نبیاً بشرع ینسخ شرعنا ولا فی ہذہ الاحادیث ولا فی غیرہا شیء من ہذا۔ بل صحت ہذہ الاحادیث ہنا وما سبق فی کتاب الایمان وغیرہا انہ ینزل حکما مقسطا یحکم بشرعنا ویحییٖ من امور شرعنا ما ہجرہ الناس‘‘
’’اور معتزلی، جہمی اور ان کے موافق کے بعض لوگوں نے انکار کیا ہے اور انہوں نے گمان کیا ہے کہ یہ حدیثیں بوجوہات ذیل مردود ہیں:
۱… خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ ’’نبیوں کے ختم کرنے والے‘‘ ہیں اور
۲… آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ’’میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘ اور
۳… تمام مسلمانوں کا اجماع اس بات پر ہے کہ ’’ہمارے نبیﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اور آپ کی شریعت دائمی ہے قیامت تک منسوخ نہ ہوگی۔
اور یہ استدلال فاسد ہے اس لئے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام سے یہ مراد نہیں کہ وہ تشریعی نبی ہوکر آئیں گے۔ جس سے ہماری شریعت منسوخ ہوجائے گی اور نہ ہی ان حدیثوں اور دوسری حدیثوں میں اس بات کا کوئی ذکر ہے بلکہ ان حدیثوں اور ’’کتاب الایمان‘‘ کی حدیثوں سے گزر چکی ہیں، ثابت ہوتا ہے کہ وہ حاکم عادل ہوکر نازل ہوں گے اور ہماری شریعت کے مطابق حکم کریں گے اور ہماری شریعت کے ان امور کو زندہ کریں گے جو لوگوں نے چھوڑ دئیے ہیں۔‘‘
(نووی شرح صحیح مسلم ج۲ ص۴۰۳، مطبوعہ ۱۳۰۱ھ مطبع انصاری دہلی)