پہلا شبہ … یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آنحضرت کے بعد نبوت بند ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب دوبارہ تشریف لائیں گے تو وہ نبی ہوں گے یا نبوت سے معزول کردئیے جائیں گے؟
جواب… اس کا جواب ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں دیتے بلکہ حضرت ابن عباسؓ کی تفسیر سے دیتے رہیں جو ایک جلیل القدر صحابی ہیں اور مرزا قادیانی کے نزدیک مسلمہ اور معتمد ہیں وہ آیت {خاتم النّبیین} کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’یرید لو لم اختم بہ النّبیین لجعلت لہ ابنائ‘‘ یعنی آیت {خاتم النّبیین} میں اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ اگر حضورﷺ کے وجود گرامی سے نبیوں کو ختم نہ کرتا تو آپ کو بیٹا عطا کرتا (جو آپ کے بعد نبی ہوتا۔) ’’ان اﷲ لما حکم ان لا نبی بعدہ لم یعطہ ولدا یصیر رجلا‘‘ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے حکم دے دیا کہ آپ کے بعد کوئی نبی تو آپ کو ایسا بیٹا ہی نہیں دیا جو جوانی کو پہنچتا۔ ’’وکان اﷲ بکل شیء علیما‘‘ ای کان فی علمہ انہ لا نبی بعدہ۔ یعنی یہ بات پہلے ہی اس کے علم میں ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ وان قلت قد صح ان عیسیٰ علیہ السلام ینزل فی آخر الزمان بعدہ وہو نبی قلت ان عیسیٰ علیہ السلام ممن نبی قبلہ وحین ینزل فی آخر الزمان ینزل عاملاً بشریعۃ محمدﷺ ومصلیاً الیٰ قبلتہ کانہ بعض امتہ۔ یعنی اگر تو کہے (اعتراض کرے) کہ حضرت عیسیٰ آخری زمانہ میں نازل ہوں گے اور وہ نبی ہیں تو میں کہتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ ان میں سے ہیں جو آنحضرتﷺ سے پہلے کے نبی ہیں اور جب آخر زمانہ میں نازل ہوں گے تو شریعت محمدیﷺ پر عمل کریں گے اور آپ کے قبلہ (خانہ کعبہ) کی طرف ہی (منہ کرکے) نماز پڑھیں گے گویا وہ آپ کی امت کے ایک فرد ہوں گے۔ (تفسیر خازن، جلد سوم ص۴۸۰)
حضرت ابن عباسؓ نے اس تفسیر میں مندرجہ ذیل امور کا فیصلہ کردیا ہے۔
۱… آنحضرتﷺ خاتم النّبیین ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
۲… آپ کی اولاد نرینہ کے زندہ نہ رہنے میں بھی خدا تعالیٰ کی یہی مصلحت تھی کہ آپ کے بعد نبوت جاری نہیں۔
ابن ماجہ کی یہ حدیث ’’لو عاش ابراہیم لکان صدیقا نبیاً‘‘ یعنی ابراہیم زندہ ہوتے تو ضرور سچے نبی ہوتے جو اکثر مرزائی پیش کیا کرتے ہیں اگرچہ یہ حدیث راوی کے مجروح ہونے کے سبب ضعیف ہے تاہم اس کا جواب بھی ہوگیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسی لئے زندہ نہ رہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد باب نبوت مسدود ہے۔