النبیﷺ بانہ لو امکن ان یتخذ خلیلا من الناس لکان ہو ذلک الخلیل وذلک لتعاقب ورد انوار الوحی من نفس النّبیﷺ الی نفس الصدیق‘‘
{یقین کامل کی شاخوں میں سے صدیقیت اور محدثیت ہے جن کی اصل حقیت یہ ہے کہ امت کے بعض افراد انبیاء کے ساتھ ایسی مناسبت رکھتے ہیں جیسے شاگرد دانا کو شیخ محقق سے ہوتی ہے۔ اگر بلحاظ قوی عقلیہ کے یہ تناسب پایا جائے تو اسے صدیق یا محدث کہیں گے اور اگر قویٰ عملیہ کے لحاظ سے مماثلت ہو تو شہید اور حواری اس کانام ہوگااور ان دو جماعتوں کی طرف آیتہ ہذا میں ارشاد موجود ہے کہ جو قوم خدا اور اس کے رسول پر کماحقہ ایمان لائے وہ صدیق اور شہید کہلائے گی اور صدیق اور محدث میں یہ فرق ہے کہ صدیق کی ذات بلحاظ اخذ علوم کے نبی کی ذات سے ایسی قریب ہوتی ہے جیسے گندھک اور آگ میں مقاربت ہے جب صدیق نبی سے کوئی واقعہ سنتا ہے فوراً اس کے دل میں خوب طرح راسخ ہوجاتا ہے او ر چونکہ اس کا دل پہلے سے اس پر گواہی دیتا ہے اس لئے نبی کی زبان سے سن کر اسے اخذ کرلیتا ہے گویا وہ ایک ایسا علم ہے جو بغیر تقلید کے اس کے دل میں موجزن ہوا ہے۔ اسی مضمون کی طرف حدیث میں اشارہ واقع ہے کہ ابو بکر صدیقؓ وحی کے نزول کے وقت جبریل کی آواز سنتے تھے۔ جب وہ آنحضرتﷺ کو وحی سناتا تھا اور صدیق کے دل میں اعلیٰ پیمانے پر نبی کی محبت جوش مارتی ہے۔ اس لئے وہ جان تن من دھن اور ہر طرح موافقت سے نبی کی ہمدردی کرتا ہے اور نبی اس کے حال کی خبر اس طرح دیتا ہے کہ جتنا ابوبکرؓ کی ذات اور مال سے مجھے فائدہ پہنچا ہے اتنا کسی کے مال سے میں نے نفع نہیں پایا اور نبی اس کے حق میں گواہی دیتا ہے کہ اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر صدیقؓ کو اپنا خلیل بناتا اس کے دل پر نبی کے دل سے انوار وحی منعکس ہوتے ہیں۔}
اور پھر لکھا: ’’والصدیق اولی الناس بالخلافۃ لان نفس الصدیق نصیرا وکرالعنایۃ اﷲ بالنّبی ونصرتہ وتائیدہ ایاہ حتیٰ یصیر کان روح النّبیﷺ ینطق بلسان الصدیق وہو قول عمر حین دعا الناس الیٰ بیعۃ الصدیق فان یک محمدﷺ قدمان فات اﷲ قد جعل بین اظہرکم نورا تہدون بہ ہدی اﷲ محمدﷺ (حجۃ اﷲ ص۲۸۳)‘‘
صدیق خلافت کے لائق تر ہوتا ہے کیونکہ اس کے دل میں نبی کی حمایت اور نصرت اور