اس میں تخلف کیوں واقع ہوا؟ حضورﷺ نے جواب دیا کہ میں نے کہا تھا کہ یہ واقعہ امسال ہوگا؟ کہا نہیں۔ فرمایا کہ زمین وآسمان ٹل جائیں مگر خدا کی باتیں نہ ٹلیں گی یہ ضرور ہوکر رہے گا۔ مسلمان خانہ کعبہ میں داخل ہوں گے۔ اور اس کا طواف کریں گے۔ خواہ کسی سال میں ہو کیونکہ خدا نے رؤیا کے پورا ہونے کی کوئی میعاد مقرر نہیں کی میں نے یہ شبہ حضرت ابو بکرؓ کے سامنے بھی ذکر کیا۔ آپ نے ترکی بترکی وہی جواب دیا جو رسول خدا نے دیا تھا بلکہ اتنا اور کہا: ’’فاستمسک بغرزہ حتی تموت فواﷲ انہ لعلی الحق‘‘ یعنی پیغمبر کے رکاب پاء کو خواب مضبوطی سے پکڑ اور مرتے دم تک نہ چھوڑ۔ خدا کی قسم وہ سچے ہیں اور ہر طرح حق پر ہیں۔ حضرت عمرؓ کے شبہات کا فور ہوگئے اور سینہ نور ایمانی سے معمور ہوگیا۔ عمرؓ کہتے ہیں اور اس برکت سے میں نے ایسے کارنامے دکھلائے ہیں جو میری فوقیت ایمانی کے گواہ ہیں۔ اس واقعہ نے اس بیان کی تصدیق کردی ہے جو شاہ ولی اﷲ صاحبؒ نے حجۃ اﷲ میں تحریر فرمایا ہے۔
حجۃ اﷲ کی عبارت
’’ومنہا الصدیقیۃ والمحدثیۃ وحقیقتہما ان من الامۃ من یکون فی اصل فطرتہ شبیہا بالانبیاء بمنزلۃ التلمیذ الفطن للشیخ المحقق فتشبہ ان کان بحسب القویٰ العقلیۃ فہو الصدیق او المحدث وان کان تشبہ بحسب القوی العملیۃ فہو الشہید والحواری والیٰ ہاتین القبیلتین وقعت الاشارۃ فی قولہ تعالیٰ والذین اٰمنو باﷲ ورسولہ اولئک ہم الصدیقون والشہداء والفرق بین الصدیق والمحدث ان الصدیق نفسہ قریبۃ الماخذ من نفس النبی کالکبریۃ بانسبۃ الی النار فکلما سمع من النبی ﷺ خبرا وقع فی نفسہ بموقع عظیم ویتلقاہ بشہادۃ نفسہ حتی صارکانہ علم ہاج فی نفسہ من غیر تقلید والیٰ ہذا المعنیٰ الاشارۃ فیما وردان ابا بکر الصدیقؓ کان یسمع دوی صوت جبریل حین کان ینزل بالوحی علی النبیﷺ والصدیق تنبعث من نفسہ لا محالۃ محبۃ الرسولﷺ اشد ما یمکن من الحب فیندفع الی المواساۃ معہ بنفسہ ومالہ والموافقۃ لہ فی کل حال حتی یخبر النبیﷺ من حالہ انہ امن الناس علیہ فی مالہ وصحبتہ وحتی یشہد لہ